لائف سٹائل

خونی رشتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

 

کیف آفریدی

باپ ایک شفیق اور محبت سے لبریز جذبات رکھنے والا انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے منہ کا لقمہ تک اپنے بچوں کو خوشی خوشی کھلا دیتا ہے۔ اپنے بچوں کو پالنے کی خاطر محنت مزدوری کرتا ہے، اور ان کی خوشی اور مستقبل کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج یہی شفیق باپ کہیں کہیں شیطان کا روپ دھار لیتا ہے۔ رواں سال جون میں پشاور رحمان بابا پولیس سٹیشن کی حدود میں ایک ایسا ہی  واقعہ پیش آیا۔ ایک عورت نے 12 سالہ بیٹی کے ہمراہ رپورٹ درج کرائی کہ انکا شوہر اپنی سگی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے۔ بیٹی منع کرتی ہے تو وہ اسلحہ تان کر چپ کرا دیتا ہے۔ ملزم کو بعدازاں حراست میں لے لیا گیا۔

یہ ایک اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے کئی کیسز سامنے آئے ہیں جس میں والد، بھائی یا دوسرے خونی رشتے بیٹیوں، بہنوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناچکے ہیں۔

اس حوالے سے ماہر نفسیات الوینہ ظہیر خٹک نے عالمی ادارہ صحت کا حوالہ دے کر بتایا کہ اگر ایک بندہ سوشلی، بائیولوجیکلی، ذہنی یا سپریچولی طور پر ٹھیک ہے تو وہ نا صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک اچھا انسان ثابت ہوتا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ نارمل انسان کہلانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ایک انسان تب نارمل انسان کہلائے گا جب اس کی جنسی خواہشات بھی ہو۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کسی کی جنسی خواہش کم ہو سکتی ہے تو کسی کی زیادہ۔

"اصل میں ہمارے لاشعور میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کہ ہم نہیں جانتے۔ جب جنسی خواہش کی ضرورت کسی انسان کی پوری نہیں ہوتی تو اس کی برداشت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ ذہنی طور معاشرتی طرز اور طریقے سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کے لاشعور میں یہ چیزیں جمع ہوتی ہیں۔ وہ جذباتی ہو جاتا ہے۔ اس میں صبر کا مادہ تقریباً ختم ہو جاتا ہے اس لیے متاثرہ شخص کی جنسی خواہشات ایک توانائی ہے جب مناسب طریقے سے خارج نہیں کر پاتا تو وہ تباہی کی طرف مڑ جاتا ہے۔ پھر وہ جسمانی اشارے، زبانی یا دوسرے غلط طریقوں سے یہ انرجی خارج کرتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کے انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ہوتا کیونکہ ایک انسان اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے۔ جبکہ جانور نما انسان جانور کی طرح جہاں بھی ضرورت پڑی، پوری کر لیتا ہے۔” ماہر نفسیات نے بتایا۔

خونی رشتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی روک تھام کیسے؟

اس حوالے سے الوینہ ظہیر خٹک نے کہا کہ جس طرح ہمارے مذہب میں پڑھایا جاتا ہے کہ جب کوئی بچہ بڑا ہو جائے تو وہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ نہیں سو سکتا بلکہ اس کے لیے ایک خاص درجہ بھی واضح طور پر بتا دیا گیا ہے۔ اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو پھر انسان کے لاشعور میں پھر اس طرح کی چیزیں آسکتی ہیں کیونکہ ہارمونز کی تبدیلی کے وقت بچے کو شعور نہیں ہوتا اور وہ اس قسم کی ضرورت کو پوری کرنے میں دلچسپی رکھنے کو ترجیح دے گا۔ اس لیے پہلے تو بہتر یہ ہے کہ متعقلہ چیزیں جو دین اسلام نے بھی ہمیں بتائی ہیں، ان پر عمل کریں۔
"میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ مذہب سے دوری اور محرمات میں رشتوں کے تقدس کے احساس کا نہ ہونا، مناسب تربیت کی کمی اور جہالت ہے۔ آج کل اس کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ پر غیراخلاقی مواد کی آسان دستیابی بھی ہے۔ ہر ایک کے لئے انٹرنیٹ پر ہر قسم کے مواد کے دروازے کھلے ہیں۔” الوینہ ظہیر نے کہا۔
"والدین کو چاہیے کہ وہ شرم محسوس نہ کریں اور بچوں کو جنسی تعلیم دیا کریں۔ تھوڑی تھوڑی معلومات دیا کریں۔ بچے پر صرف اُس وقت معلومات کی بوچھاڑ نہ کریں جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔ اِس کی بجائے بچپن سے ہی اُسے اُس کی سمجھ کے مطابق آہستہ آہستہ جنسی معاملات کے بارے میں سکھاتے رہیں۔ ہمارے ہاں بعض سکولوں میں بچوں کو جنسی معاملات کے بارے میں تھوڑی بہت تعلیم دی جاتی ہے۔ والدیں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اپنے بچوں کو یہ بتائیں کہ جنسی معاملات میں کیا کچھ شامل ہے بلکہ اُنہیں اِس حوالے سے درست سوچ اور رویہ اپنانے کی تعلیم بھی دیں۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ جو لوگ دوسروں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، وہ عموماً کون سے حربے اِستعمال کرتے ہیں۔
اپنے بچے کو سکھائیں کہ اگر کوئی شخص آپ کی غیرموجودگی میں اُس کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے کیا کرنا چاہیے۔ اگر آپ اُس کے ساتھ اِس طرح کی صورتحال کی مشق کریں گے تو اُس کے اندر یہ بات کہنے کا اِعتماد بڑھے گا۔

جنسی زیادتی کرنے والے مجرم کو کون سی سزا دی جاتی ہے؟

ایڈوکیٹ سید بلال جان نے اس بارے میں بتایا کہ مختلف سروے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر 11 ایسے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں خونی رشتے جنسی تشدد کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سال دوہ ہزار پندرہ سے دو ہزار بیس تک تقریباً 22 ہزار سیکشوول ہراسمنٹ کے کسیز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں خونی رشتوں کے کیسز بھی شامل تھے پر ان 5 سالوں کے درمیان صرف چار ہزار کیسز ایسے تھے جو کورٹ چلے گئے تھے، باقی تمام کے تمام کا خاتمہ ہوا کیوںکہ ان کو عدالتوں میں نہیں لایا گیا اور نہ ایف آئی آر درج ہوئی۔

ایڈوکیٹ سید بلال جان کا کہنا تھا کہ تعزیرات پاکستان سیکشن کورٹ 376 کے مطابق کوئی بھی بندہ رضامندی یا رضامندی کے بغیر کسی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کرے تو اس کی سزا 10 سال سے کم نہیں ہو گی۔ اور زیادہ سے زیادہ 25 سال سزا ہو گی ساتھ میں جرمانہ بھی ہو گا۔ اگر دوران ریپ متاثرہ لڑکی کو زخمی کرے اور ظلم او جبر بھی کرے تو ایسے ملزم کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اسی طرح زنا بالجبر یا زنا بالاکراہ کے بارے میں اسلامی موقف یہ ہے کہ یہ زنا ہی کی ایک قسم ہے اور اس کے لیے شریعت میں وہی سزا ہے جو اس کی دوسری قسم، زنابالرضا کے لیے مقرر ہے۔ چنانچہ یہ زنا بالرضا ہی کی طرح مستوجب حد ہے جس کی شرعی سزا 100 کوڑے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں حدود لاز 1976 میں اسلامی سزائیں بھی رکھی گئی تھیں۔ تاہم آج کل کے دور میں یہ سزائیں اس لیے ممکن نہیں کیونکہ ان کیسز کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ایڈوکیٹ سید بلال جان کے مطابق خونی رشتوں کے درمیان جنسی تعلقات جو زبردستی استوار کئے جائیں، اس کے لیے الگ سے سزا تجویز کرنا ضروری ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button