مہنگائی نے خواتین سے نئے اور خوبصورت کپڑوں کا خواب بھی چھین لیا
حدیبیہ افتخار
پاکستان میں بڑھتی مہنگائی سے ہر کوئی پریشانی میں مبتلا ہے۔ مہنگائی کی لہر سے بچا کوئی بھی نہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف پٹرول تک محدود نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کا پورا معاشی نظام ہل کر رہ جاتا ہے۔
جب حکومت مہنگائی کا نیا بم عوام پر گراتی ہے, تو کسی کو اضافی پیسے کمانے کی فکر پڑ جاتی ہے تو کسی کو گھریلوں اخراجات پورے نہ ہونے کا غم ستاتا ہے۔ کوئی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتا تو کوئی کم عمری میں ہی محنت مزدوری کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔ مہنگائی کے دور میں گھر چلانا کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں رہی۔
معاشرے کا ہر فرد مہنگائی سے کا رونا رو رہا ہے خواتین/ لڑکیاں بھی کمر توڑ مہنگائی سے کافی پریشان دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ان کے فیشن کا شوق بھی اس مہنگائی کی وجہ سے آدھا ادھورا ہوکر رہ گیا ہے۔
نئے کپڑے بنوانا ہر لڑکی کا شوق ہوتا ہے لڑکیاں خوبصورت کپڑے پہن کر جہاں بھی جاتی ہے تو وہ اس کی وجہ سے بہت پر اعتماد محسوس کرتی ہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے لڑکیاں وہ فیشن نہیں کرپاتی جو پہلے کرتی تھی۔
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی ندا شاہ کہتی ہے کہ شاید باقی لڑکیوں کو کپڑے بنانا صرف پسند ہو مگر انکو بلا وجہ کپڑے بنانے کا کریز تھا۔ دن رات میرا اسی میں گزرتا تھا ایسا کونسا رنگ ہے جس رنگ کے کپڑے انکے پاس نہیں ہے، اور ہر سوٹ کے لئے نئے ڈیزائنز کے سکرین شاٹس انکے موبائل میں اس وقت تک محفوظ رہتے جب تک وہ سوٹ بن کر انکی الماری تک نہ پہنچ جاتا۔
ندا شاہ نے بتایا کہ انکو کپڑوں سے اس قدر لگاؤ تھا کہ انہوں نے محض اپنا یہ شوق پورا کرنے کے لئے جاب شروع کی مگر اس مہنگائی کی وجہ سے اب شوق پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
ندا ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ان پر اپنے گھر کی کسی قسم کی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ جو کماتی ہیں خود پر خرچ کر دیتی ہیں مگر ان کے مطابق اب ایسا نہیں ہے کہ ان کی الماری کپڑوں سے پہلے کی طرح سجی ہے۔
ندا کہتی ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اور ان کا شوق نئے کپڑے ہیں، جن پیسوں سے کبھی تین سے چار جوڑے بنتے تھے اب بمشکل ایک بن پاتا ہے۔ پہلے کپڑا لینا، پھر میچنگ کی لیس، اور پھر سلائی کے پیسے، اب اتنی مہنگائی ہوگئی ہے کہ ایسے میں بندہ کیسے اپنا شوق پورے کرے۔
لبنٰی آفتاب بھی مہنگائی سے پریشان اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اگر مہنگائی بڑھ بھی گئی ہے تو کپڑوں کی خریداری میں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ آج بھی ویسے ہی کپڑے خرید رہے ہیں جیسے پہلے خریدتے تھے، لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ اب لوگ کپڑوں اور جوتوں پر سیل لگنے کا انتظار پہلے سے زیادہ کرتے ہیں کہ قیمت کم ہو اور ان کے بجٹ کے مطابق وہ خرید کر سکیں۔
لبنٰی کا تعلق واہ کینٹ سے ہے اور وہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ پہلے اگر لوگ ایک سوٹ کا استعمال ایک سے زائد بار نہیں کرتے تھے لیکن اب نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سوٹ کئی فنکشنز میں پہن کر جاتے ہیں کیونکہ ہر چیز اتنی مہنگی ہے کہ اب ہر فنکشن کے کے لئے نیا سوٹ اور اس کے مطابق میچنگ شوز اور جیولری خریدنا ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔
لیلیٰ اشفاق کا تعلق نوشہرہ سے ہے وہ بھی سکول ٹیچر ہے۔ لیلی کا کہنا ہے کہ کپڑے خریدنا صرف ان کا شوق نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے۔
ٹی این این سے بات چیت کے دوران انہوں نے بتایا کی وہ روز سکول جاتی ہے اس لئے ان کے کپڑوں کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برینڈز کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے اور سیل لگنے کی صورت میں کپڑے اچھے قیمت پر مل جاتے ہیں مگر کوالٹی خراب ہونے کی وجہ سے جلدی خراب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی ہر ماہ کپڑے لینے پڑتے ہیں اور ایک اچھی خاصی رقم صرف کپڑوں پر ہی لگ جاتی ہے۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ وہ گرمیوں کے کپڑے سیل لگنے کی صورت میں سردیوں، اور سردیوں کے کپڑے گرمیوں میں لے لیتی ہے جس سے تھوڑی بچت ہو جاتی ہے لیکن آج کل مہنگائی میں سیل والے کپڑے خریدتے ہوئے بھی انسان کا دل دکھتا ہے۔