لائف سٹائل

باجوڑ: مسیحی برادری اپنی میتیں دیگر علاقوں میں دفنانے پر مجبور کیوں؟

مصباح الدین اتمانی

‘ہمیں اپنی میت کو باجوڑ سے نوشہرہ لے جانا پڑتا ہے کیونکہ یہاں ہمارے لیے کوئی قبرستان موجود نہیں ہے جہاں ہم اپنی میتوں کو دفنا سکیں’

یہ کہنا ہے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مسیحی برادری کے صدر پرویز مسیح کا۔ پرویز مسیح کے مطابق ایک تو ان کو اپنے پیاروں کی موت کا دکھ ہوتا ہے اور دوسری طرف جب کوئی مرجاتا ہے تو انہیں یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اب ان کو بہت دور لے جانا پڑے گا۔

پرویز مسیح نے بتایا کہ آج کل مہنگائی کا دور ہے۔ ایسے میں جب وہ میت کو باجوڑ سے نوشہرہ لے جاتے ہیں تو اس پر ان کا ہزاروں روپے خرچہ آتا ہے اور باقی مشکلات بھی الگ ہوتی ہے۔ پرویز مسیح نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت ان کی کوئی مدد نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ ایک میت پر ٹرانسپورٹ کی مد میں ان کا 40 ہزار سے زیادہ خرچہ آتا ہے اور مہنگائی کے اس دور میں ان کے لیے یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

میت کو دفنانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں

نوشہرہ لے جاکر بھی ان کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ وہاں بھی ان کو اجازت لینا ہوتی ہے اور یوں میت کو دفنانے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

پرویز مسیح نے کہا کہ باجوڑ میں اس وقت تین سو کے قریب مسیحی برادری کے لوگ آباد ہیں اور وہ خود 40 سال قبل یہاں آئے تھے ان کے بچوں کی پیدائش بھی باجوڑ میں ہوئی ہے لیکن ابھی تک ان کے لیے قبرستان نہ بن سکا۔

پرویز مسیح نے بتایا کہ باجوڑ میں مسیحی برادری کے قبرستان کے لیے انہوں نے خود بہت زیادہ کوششیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوشہرہ میں حکام سے ملاقاتیں کیں جنہوں نے یقین دہانی کرائی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پرویز مسیح نے کہا کہ جب محمد علی اسسٹنٹ کمشنر خار تھے تب انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ فنڈز آئے ہیں 22 لاکھ روپے جس سے آپ لوگوں کے لیے قبرستان بنائیں گے تاہم وہ پیسے واپس چلے گئے اور آج تک ہمارا قبرستان نہ بن سکا۔

باجوڑ میں بسنے والی مسیحی برادری انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے

پرویز مسیح کے مطابق باجوڑ میں بسنے والی مسیحی برادری انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے اور ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ان کو اگر قبرستان کے لیے ایک کنال تک زمین مل جائے تو ان کا دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔

پرویز مسیح کے مطابق یہاں مقامی لوگ بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں اگر کوئی ایک خان بھی ہمیں زمین دے دیں تو ہمارا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

سنہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی 20 کروڑ بتائی گئی ہے، ملک کی 96.4 فیصد آبادی مسلم جبکہ باقی اقلیتی برادری پر مشتمل ہے، مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری کی آبادی دو لاکھ ہے۔ 2017 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا میں مسیحی برادری کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 26 ہزار 814 جبکہ ضم اضلاع میں ان کے 1345 ووٹ موجود ہیں۔

ادھر پشاور سے تعلق رکھنے والے کرسچن کمیونٹی کے آگسٹن جیکب کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں عرصہ دراز سے مسیحی برادری کے لوگ رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں جن کے کئی ایک مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا نہ صرف باجوڑ بلکہ تمام قبائلی اضلاع میں اقلیتی برادری کے لوگ رہتے ہیں جن کو ڈومیسائل تک نہیں دیئے جاتے تھے تاہم اب ان کا یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے اور اب اقلیتی برادری کے لوگوں کو بھی مقامی ڈومیسائل بنا کے دیئے جارہے ہیں۔

مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے آگسٹن جیکب نے کہا کہ بجٹ میں 139 قبرستانوں کے لیے 21،22 بجٹ میں پروپوزل تھے اور باقاعدہ تین سو ملین کے فنڈز بھی ریلیز کئے گئے تھے لیکن پھر جب عمران خان کی حکومت کے آخری دن تھے تو وفاقی حکومت نے کہا تھا کہ سارے اکاونٹس کے پیسے ایک ہی اکاونٹ میں شفٹ کردیں اور یوں قبرستان نہ بن سکے۔

دوسری جانب ڈپٹی کمشنر باجوڑ انور الحق نے بتایا کہ حکومت باجوڑ میں مسیحی برادری کے لیے قبرستان بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اقلیتی برادری حکومتی ترجیحات میں شامل ہے، پہلے تو مسیحی برادری کی تعداد باجوڑ میں بہت کم تھی لیکن وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوا ہے، ان کی قبرستان کی ضرورت ہمارے نوٹس میں ہے، اب حکومت کی پہلی ترجیح ان کے لیے قبرستان بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے متعلقہ پلیٹ فارمز پر یہ مسئلہ اٹھایا ہے لیکن ابھی تک مسیحی برادری کے قبرستان کے لیے زمین اس وجہ سے الاٹ نہیں ہوئی کیونکہ فنڈز کی کمی ہے، ضلعی انتظامیہ ان کا یہ بنیادی مسئلہ حل کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گا۔

زیادہ تر لوگ ملاکنڈ میں میت دفناتے ہیں

مینارٹی رائٹس فورم کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی نے اس حوالے سے بتایا کہ باجوڑ میں دو سو تک مسیحی خاندان آباد ہیں جنہوں نے کئی بار حکومت سے الگ قبرستان کا مطالبہ کیا لیکن ان کی نہیں سنی گئی۔ انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ بہت کم لوگ باجوڑ سے نوشہرہ میت لے کرجاتے ہیں زیادہ تر لوگ ملاکنڈ میں اپنے مردوں کو دفناتے ہیں کیونکہ ملاکنڈ میں ان کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا ہوتا اور نوشہرہ میں صرف وہی لوگ لے کر آتے ہیں جن کا تعلق نوشہرہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتی برادری کو حقوق ملنے کی باتیں تو ہوتی ہے لیکن اصل میں ان کو حقوق نہیں ملتے۔

رادیش سنگھ ٹونی نے کہا کہ پاکستان میں موجود تمام اقلیتی برادری کو وہ تمام حقوق ملنے چاہئیے جو آئین نے ان کو دیئے ہیں۔ باجوڑ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ جب وہ میت لے کرجاتے ہیں ایک تو ان کے 4 سے 5 گھنٹے لگتے ہیں دوسرا خرچہ بھی بہت آتا ہے اور مہنگائی اتنی ہے کہ کوئی دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب میت ہوتی ہے تو زیادہ لوگ جنازے میں شرکت کرتے ہیں اور سب کے لیے گاڑی کا انتظام کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر علاقے میں قبرستان ہوگا تو لوگ پیدل سفر کرکے ایک گھنٹے میں میت کو دفنا سکیں گے اور فضول خرچوں سے بھی بچ سکیں گے۔

انہوں نے ضلع باجوڑ کے ڈی سی سے بھی درخواست کی کہ مسیحی برادری کو قبرستان کے لیے جگہ دی جائے تاکہ وہ مذہبی رسومات کے ساتھ اپنے مردوں کو دفنا سکیں۔

رادیش سنگھ ٹونی کے مطابق خیبر پختونخوا میں کرسچن کمیونٹی کی کل آبادی 45 ہزار تک ہے اور فاٹا انضمام کے بعد یہ آبادی بڑھ کر پچاس ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف باجوڑ میں قبرستان بلکہ اقلیتی برادری کے شمشان گھاٹ اور باقی جتنے مسائل ہیں، سب کو حل کیا جائے کیونکہ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔

نوٹ: یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فیلو شپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button