لائف سٹائل

سابق حکومت نے موسیقی کیلئے پالیسی کا اعلان کیا مگر نفاذ کیسے ہوگا؟

رفاقت اللہ رزڑوال

سابق وفاقی حکومت کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنی الوداعی ٹویٹ میں کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے 9 اگست کو اپنی حتمی اجلاس میں میوزک پالیسی کی منظوری دی ہے جس کا مقصد پاکستان میں موسیقی کے ورثے کے تحفظ، موجودہ موسیقی کے منظر نامے کی ترویج اور ترقی اور قانونی فریم ورک کے ذریعے موسیقی سے جُڑے ہنرمندوں کے کام کا تحفظ کرنا ہے۔

مریم اورنگزیب نے اپنی ٹویٹ میں پالیسی کے حوالے سے مزید تفصیلات شئیر نہیں کی ہے۔ موسیقی سے جڑے ہنرمندوں اور ثقافت کے شعبے سے جڑے ماہرین نے اس اقدام کی تعریف کی ہے مگر کہتے ہیں کہ پالیسیاں اور قوانین پہلے ہی سے موجود ہے اس پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔

خیبرپختونخوا میں موسیقی سے جڑے افراد کے حقوق کی غیر سرکاری تنظیم کے جنرل سیکرٹری فضل وہاب درد اس پالیسی کو قابل ستائش سمجھتے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی فنکاروں اور ہنرمندوں کیلئے درجنوں قوانین بنائے گئے ہیں مگر وہ عملی طور پر نافذ نہیں کئے گئے ہیں۔

فضل وہاب درد نے ٹی این این کو بتایا ” پاکستان میں اصل مسئلہ قوانین اور پالیسیاں مرتب کرنا نہیں، یہاں پر تو ہم آئے روز ثقافت کو فروغ دینے کیلئے دلکش پالیسیوں کے بارے میں سنتے ہیں مگر اس کو عملی طور پر نافذ کرنا اصل چیلنج ہوتا ہے۔ اس سے 5 سال قبل بھی صوبے کی سطح پر کلچرل پالیسی بنائی گئی تھی مگر وہ تاحال نافذ نہیں ہوئی ہے”۔
فضل وہاب کا کہنا ہے کہ ہنری ٹولنہ عرصہ دراز سے صوبوں کی سطح پر سنسر بورڈز کی فعالیت، کاپی رائٹس محفوظ کرنے اور میوزک سٹریٹس کے قیام کا مطالبہ کرتے آئے ہیں مگر تاحال یہ مسائل زیربحث ہے۔

درد کہتے ہیں ” میرے خیال میں 2004 یا 5 میں ڈبگری میں ہم سب اکٹھے ایک ہی جگہ پر رہائش پذیر تھے مگر حکومت نے ہماری میوزک سٹریٹ ختم کر دی جس سے ہماری برادری تتر بتر ہوگئی۔ اب ہم مختلف جگہوں پر اپنا دھندہ چلا رہے ہیں جہاں پر اکثر عام لوگ ہمیں تنگ کر کے موسیقی سے روک دیتے ہیں تو ہمیں تحفظ کے ساتھ ایک مخصوص جگہ فراہم کرنے ضرورت ہے”۔
درد نے بتایا "اگر موسیقاروں، فنکاروں اور موسیقی کو تحفظ دینے کے ساتھ کاپی رائٹس کے قوانین عملی طور پر نافذ کئے جائے تو اس سے نہ صرف پروفیشنل افراد سامنے آئیں گے بلکہ موسیقی میں نئی تحقیق، کمپوزیشنز اور جدت کو بھی فروغ ملے گا”۔
فضل وہاب درد نے افغانستان کے سقوط کے بعد آئے ہوئے افغان مہاجرین موسیقاروں کے حوالے سے بتایا کہ وہ طالبان کی حکومت سے پناہ لے کر آئے ہیں۔ اب انہیں بھی انتظامیہ کی جانب سے ویزوں، پاسپورٹس اور دیگر قانونی پیچیدگیوں کی بنیاد پر تنگ کیا جا رہا ہے لیکن یہ قانونی اسناد تو اس صورت میں مکمل ہوتے ہیں جب کوئی مہاجر نہ ہو لیکن یہاں پر تو انہوں نے سر کی پناہ لی ہوئی ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ وہاں پر نہ صرف ڈھول، ہارمونیم اور دیگر آلات جلائے گئے تھے بلکہ موسیقاروں کی سر اور بھنویں بھی منڈوائے گئے تھے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو چاہئے کہ قانون سازی کے ذریعے افغان موسیقاروں کو تحفظ اور آزادی دی جائے تاکہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کرسکے۔

اس سے قبل 26 جون کو سابق وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ 1970 کی دہائی سے موسیقی کی صنعت کے فروغ کیلئے قانونی سازی سمیت کوئی بھی پالیسی پیرامیٹرز متعارف نہیں کرائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ پالیسی میوزک پروڈیوسرز، گلوکاروں اور ادیبوں کو قانونی تحفظ فراہم کرے گی لیکن ثقافتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے سے انتہاپسندانہ روئے، دہشتگردی اور تعصب پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

پشاور میں موسیقی کا ہنر سکھانے کے غیرسرکاری ادارے مفکورہ کے چئرمین حیات روغانی کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی میں میڈیا، فائن آرٹس، فلمز اور ڈرامے اہم کردار ادا کرتے ہیں اگر انہیں قانونی تحفظ دیا جائے تو وہ قومیں ترقی کی منزلیں طے کرسکتی ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مرتب شدہ پالیسی کتنی آزاد ہے۔
حیات روغانی نے ٹی این این کو بتایا "اب ہم دیکھتے ہیں کہ ابلاغ عامہ کی ریاستی ادارے مثلاً پی ٹی وی ایک خاص سوچ اور اسلامی نظریات کے تحت چلائے جاتے ہیں لیکن ان مواد کو اکثر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی جو اصل حقائق ہو اصل مسئلہ یہاں سے شروع ہوگا کہ کیا واقعی یہ پالیسی عوامی ہوگی ریاستی”۔

انہوں نے کلچر مواد کے فروغ کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آرٹ انسان کو تعصب، نفرت اور تشدد سے دور رکھتا ہے اور تہذیب کو فروغ دینے میں مدد دیتا ہے تو اپنی معاشرتی اقدار، روایات اور تہذیب کو تحفظ دینے کیلئے ضروری ہے کہ مروجہ قوانین اور پالیسوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

پالیسی اور قانون میں فرق کیا ہے؟

اسلام آباد میں مقیم صحافی علی حسین طوری بتاتے ہیں کہ پالیسی کسی محکمے، ادارے یا کمپنی کی مستقبل میں کام کرنے کی حکمت عملی ہوتی ہے جو مرتب ہونے کے بعد فوراً نافذالعمل ہوجاتی ہے جبکہ قانون سازی کیلئے ضروری ہے کہ پہلے کسی مسئلے پر قابو پانے کیلئے ڈرافٹ بنائی جاتی ہے جسکے بعد بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں بحث کیلئے پیش کی جاتی ہے اور سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد قانون کی شکل اختیار کرتی ہے۔

علی حسین کہتے ہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قانون سازی یا پالیسیاں مرتب کرنا نہایت قابل ستائش ہے لیکن اب پاس کردہ بل پر نگران یا مستقل حکومتوں کو چاہئے کہ اس کا نفاذ کرے اور عوام کو اسکے ثمرات پہنچ جائیں۔
علی حسین حکومت کی آخری دنوں میں پالیسیاں تشکیل دینے اور عملی کرنے پر زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت نے 16 ماہ تک حکومت کی ‘اگر وہ اتنے سنجیدہ تھے تو ان پالیسیوں کو مرتب کرنے اور بلوں کو اپنے حکومت کے اوائل میں کیوں پاس نہیں کیا چونکہ انہیں پتہ ہے کہ اسکے نفاذ پر سوال اُٹھے گے تو اپنی حکومت کے آخری دنوں میں یہ اقدام اُٹھایا’۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button