دھماکے میں ایک پاؤں سے محروم سپاہی دوبارہ ڈیوٹی کرنے کو تیار
آفتاب مہمند
آج سے 13 سال قبل 4 اگست 2010 کو سابق ایڈیشنل آئی جی خیبر پختونخوا پولیس صفت غیور کو پشاور صدر میں اس وقت ایک خودکش دھماکے میں شہید کیا گیا جب وہ اپنے فرائض سر انجام دینے کے لیے دفتر سے نکلے۔ اس سے قبل بھی خیبر پختونخوا پولیس کے سیکڑوں اہلکار اور افسران نے دہشتگردی کی جنگ میں مختلف علاقوں میں دوران ڈیوٹی جام شہادت نوش کیا ہے۔
تاریخی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو 1970 میں خیبر پختونخوا پولیس کے پہلے اہلکار نے جام شہادت نوش کی تھی جبکہ شہدائے کاروان کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 1970 سے لیکر اب تک خیبر پختونخوا پولیس کے 1982 اہلکار اور افسران نے ملک و قوم کی خاطر قربانیاں دی ہیں۔
یاد رہے کہ صفوت غیور کی شہادت کے بعد خیبر پختونخوا پولیس ہر سال 4 اگست کو یوم شہدائے پولیس مناتی ہے جبکہ آج بھی اس روز کو عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔
40 سالہ شاہ سعود پشاور کے علاقے بشیر آباد مدینہ کالونی کے رہائشی ہیں۔ وہ 2006 میں بطور پولیس کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے شاہ سعود کا کہنا تھا کہ 3 دسمبر 2010 کو دن 11 بجے وہ پولیس موبائل میں گشت پر تھے کہ اس دوران اچینی بریکر کے قریب پہلے سے نصب بم پھٹنے سے ان کا ایک ساتھی شبیر احمد شہید جبکہ ان سمیت دیگر اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
اس دھماکے میں شاہ سعود ایک پاؤں سے محروم ہوگئے تھے۔ ان کے بقول زخمی ہونے کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا تاہم طبیت زیادہ خراب ہونے کے باعث وہ سات دن تک بے ہوش پڑے تھے جبکہ وہ ایک مہینے تک حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیر علاج تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی مشکلات یہی ختم نہیں ہوئی کیونکہ گھر منتقلی کے بعد انہیں گردوں کی بیماری لاحق ہو گئی اور کچھ عرصے قبل ان کے دونوں گردے فیل ہوگئے جس کے بعد انہوں نے ڈائیلاسز شروع کیا اور وہ اب ٹرانسپلانٹ کرانے جا رہے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ صحتیاب ہونے کے بعد دوبارہ پولیس کی ڈیوٹی جوائن کریں۔
وہ محکمہ پولیس کے شکر گراز ہیں کہ 2010 سے لیکر اب تک ان کے ساتھ بھر پور معاونت کر رہی ہیں جبکہ وہ بطور سپاہی خیبر پختونخوا پولیس پر فخر محسوس کرتے ہیں جہوں نے دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دہشتگردی کے 660 سے زیادہ چھوٹے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں پانچ سو زائد افراد جان کی بازی ہار گئے۔ دہشتگردی کے سب سے زیادہ 140 واقعات شمالی وزیرستان میں ہوئے جبکہ ڈی آئی خان میں 81، جنوبی وزیرستان میں 49، پشاور اور باجوڑ میں دہشتگردی کے 56، 56 واقعات رپورٹ ہوئے۔
رواں سال اگر محکمہ پولیس کی بات کیجائے تو صوبہ بھر میں اب تک 137 پولیس اہلکار و افسران دہشتگردی کا شکار ہوکر قربانیاں دی ہیں۔
دوسری جانب محکمہ انسداد دہشتگردی نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران دہشتگردوں کیخلاف 1100 سے زیادہ آپریشنز کئے جس میں 140 تک دہشتگردوں کو مارا گیا۔ اسی طرح 400 سے زیادہ شدت پسندوں کو گرفتار کرکے ایک بڑی تعداد میں اسلحہ و بارودی مواد کو بھی برآمد کیا گیا۔
ادھر خیبر پختونخوا پولیس کی قربانیوں پر آئی جی خیبر پختونخوا پولیس اختر حیات خان کہتے ہیں کہ صوبے کی مثالی پولیس ایک نڈر اور بہادر فورس ہے۔ دنیا اس بات پر حیران ہے کہ یہ وہ فورس ہے جنہوں نے وسائل، اوزار کی کمی کے باوجود دہشتگردوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کر طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کو گلے لگا کر ان کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دئے، غازیوں، ساویروں اور شہیدوں کی اس فورس نے اپنے ذات یا خاندان والوں کیلئے قربانیاں نہیں دی بلکہ اس مٹی اور ملک پر خود کو قربان کیا ہےجبکہ آج اگر صوبے میں امن قائم ہو چکا ہے تو یہ ان نوجوانوں کی قربانیوں کی مرہون منت ہے۔