لائف سٹائل

خیبر پختونخوا میں بے روزگار صحافیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

ذیشان کاکاخیل

صحافت کے علاوہ کچھ اور کام نہیں سیکھا، گزشتہ 15 سالوں سے مختلف میڈیا اداروں میں بطور کیمرا مین کام کرتا چلا آرہا ہوں۔ 2014 میں ایک بڑے چینل کا آغاز ہوا ( نام نہیں لیا جاسکتا ) جہاں مجھے کافی اچھی تنخواہ اور دوسری مراعات کی پیشکش کی گئی۔ اس آفر کو غنیمت سمجھتے ہوئے میں نے اس چینل میں ملازمت اختیار کرلی اور نئے چینل کی طرح ایک نئے جذبے اور جوش کے ساتھ اس میں کام شروع کیا، کیا دن اور کیا رات ،نہ گرمی دیکھی اور نہ سردی کی کوئی پروا کی. کئی سالوں تک اس چینل کی ترقی اور کامیابی کے لئے انتھک محنت کی اور دن رات ایک کر کے ایسی تاریخی، ثقافتی، کرپشن کی رپورٹس تیار کی کہ شائد سالوں بعد بھی کوئی اتنی کم وقت میں اتنا زیادہ کام کرسکے۔

جب چند سالوں کے اندر اندر یہ چینل پاکستان کے ٹاپ 5 چینلز میں شمار ہونے لگا تو بلاوجہ ملازمین کو تنگ کیا جانے لگا اور انہیں مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اس ادارے میں کام کرنا چھوڑ دے۔

ان خیالات کا اظہار پشاور میں گزشتہ 15 سالوں سے بطور کیمرا میں کام کرنے والے ویڈیو جرنلسٹ محمد اشفاق حسین نے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ جب ادارے صحافیوں کو نکال رہے تھے تو اس دوران ان کے اکثر دوست بے روزگار ہونے پر انہیں شدید دکھ تھا اور یہی سوچ رہا تھا کہ اب یہ لوگ کہا جائے گئے، ان کے گھروں کا چھولا اب کیسے جھلے گا۔ ان دنوں میں ایک رات اچانک چینل کا دیا گیا موبائل سم کارڈ بند ہوگیا، سم بند ہوتے ہی مجھے لگا کہ اللہ رحم کرے کچھ تو گڑ بڑ ہے اور مجھے لگا کہ حالات کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ بہر حال مجھے لگا ہوسکتا ہے کہ موبائل میں کوئی مسئلہ ہو یا پھر سم میں کوئی خرابی آئی ہوں۔ یہ کہہ کر دل کو تسلی دی اور سو گیا۔ صبح سویرے حزب معمول ڈیوٹی کے لئے دفتر آیا تو مجھے بتایا گیا کہ ہمارے ادارے کو اب آپ کی ضرورت نہیں ہے لہذا آپ سم کارڈ اور ادارے کی دوسری چیزیں واپس کردے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی اور ایک دم اپنے سکول جاتے بچوں کا خیال آیا کہ ان کے فیسیں، روز روز کی فرمائشیں اور دوسری ضروریات اب کون اور کیسے پورا کرے گا۔ میرے ذہن میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوئی اور سوچنے لگا کہ اس عمر اور اس حالات میں کونسا کام کرونگا، نہ تو دیہاڑی کرسکتا ہو اور نہ ہی کوئی اور کام کا ہنر سیکھا ہے، خود سے کہنے لگا کہ مجھے تو کیمرا چلانے کے علاوہ اور کچھ بھی آتا نہیں ہے۔ اب اس بحرانی صورتحال میں کس ادارے میں نوکری اختیار کرونگا کون اس مشکل حالات میں مجھے ملازمت فراہم کرے گا، جہاں سے میرا اور میرے پانچ، چھ افراد پر مشتمل کنبے کا پیٹ پالنے کا بندوسبت ہوسکے؟

اشفاق کے مطابق 2017 میں میڈیا ادارے ملازمین کے لئے ایک سخت حالات سے گزر رہے تھے اس لئے کسی دوسرے ادارے میں نوکری ملنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، بے یقینی کی صورتحال میں ہر کسی کو اپنی نوکری کی فکر تھی کیونکہ بڑے بڑے اداروں سے دھڑا دھڑ ملازمین کو فارغ کیا جارہا تھا ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا کہ شاید کل میرا اپنے ادارے میں آخری دن ہوگا ہر کسی کو ہر روز یہ ڈر رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت ملازمت سے فارغ ہوسکتے ہے۔ ان کے مطابق صحافت کے لئے کوئی اور کام بھی نہیں جانتا تھا اس لئے انتہائی پریشانی کی حالات میں گھر گیا اور پورے راستے میں سوچتا رہا کہ صحافت کے شعبے میں آنا شاید میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی کیونکہ جوانی اسی شعبے میں گزاری اور اب یہ صلہ ملا کہ نہ پینشن اور نہ ہی کچھ اور حال تو یہ ہے ایک دم میں بغیر نوٹس اور بغیر بتائے مجھے نوکری سے فارغ کردیا گیا۔

ان کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت میڈیا کو کافی مالی مشکلات کا سامنا تھا لیکن کسی ورکر کو بلا وجہ نوکری سے فارغ کرنا کہا کا انصاف ہے۔ آنسو بھرے آنکھوں کے ساتھ اشفاق کا بتانا تھا کہ اپنی تو جیسے بھی ہوں گزر جاتی لیکن میرے خاندان اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا سوچ کر پریشان ہوجاتا کہ ان کا کیا ہوگا، اب وہ کیسے پرائیوٹ سکول میں تعلیم جاری رکھے گئے ان کے لئے تو کچھ جمع بھی نہیں کیا ہے۔ کئی سال بے روزگار گزارنے کے بعد اب کھبی ایک ادارے تو کھبی دوسرے ادارے کے ساتھ یومیہ اجرت کی بنیاد پر ایک مزدور کی طرح کام کر رہا ہوں۔ دیہاڑی ملی تو ٹھیک ورنہ شام کو خالی ہاتھ گھر چلا جاتا ہوں۔ موجودہ حالات میں بمشکل اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہا ہوں۔

ان کے مطابق اس مشکل حالات میں نہ پریس کلب، نہ خیبر یونین آف جرنسلٹ اور نہ ہی حکومت نے تعاون کیا ہے۔ اب تک درجنوں صحافی بے روزگار ہے نہ حکومت اور نہ ہی کسی ادارے نے ان کے لئے آواز نہیں اٹھائی جس کا افسوس ہے۔

اشفاق کے مطابق تمام حالات کے باوجود اب بھی پرامید ہوں کے اچھے دن آئے گئے اور وہ پھر سے دل لگا کر کام کریں گے۔

بے روز گار صحافیوں کی تعداد

پاکستان میں ایک جانب جہاں مہنگائی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے تو وہی بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ بڑے بڑے کارخانے بند ہوگئے ہے، سرمایہ کار ڈر کے مارے اپنا کاروبار دوسرے ممالک میں منتقل کر رہے ہے۔ مہنگائی نے جہاں تمام شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے وہی میڈیا انڈسٹری کو بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹیلی ویژن میں کام کرنے والے صحافی ہو یا پرنٹ میڈیا میں سب کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کو مشکلات نہ صرف آزادی رائے حق نہ ملنے کی صورت میں ہے بلکہ مالی مشکلات کا بھی ہے۔

خیبر پختونخوا میں بدامنی اور دہشت گردی تھی تو اس دوران دنیا بھر کے میڈیا اداروں نے یہاں پر اپنے دفاتر قائم کئے تھے ہر کسی کی مرکز نگاہ خیبر پختونخوا تھا۔ اس وقت صحافیوں کی قدر تھی اور اس دوران صحافیوں کی مالی حالت بھی کافی بہتر تھی لیکن وقت کے ساتھ جب اداروں پر مشکل کی گھڑی آئی تو انہوں نے سب سے پہلے خیبر پختونخوا کو نشانہ بنایا اور یہاں صحافیوں سے روزگار چھینا گیا۔ خیبر پختونخوا میں صحافیوں کی بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کا اندازہ پشاور پریس کلب سے لی گئی دستاویزات سے کیا جاسکتا ہے۔

دستاویزات کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران خیبر پختونخوا کے 2 درجن سے زائد صحافیوں کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے. کھبی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ہوگا کہ بغیر کسی نوٹس اور وجہ کے نوکری سے صحافیوں کو نکالا جائے لیکن خیبر پختونخوا اور بالخصوص پشاور کے صحافیوں کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا ہے. گزشتہ 4 سالوں کے دوران خیبر پختونخوا میں بے روزگار ہونے والے صحافیوں کی تعداد 42 ہے، جن میں کئی سنئیر صحافی بھی شامل ہیں۔ نوکری سے نکالے گئے صحافیوں میں فیلڈ میں کام کرنے والے رپورٹرز اور کیمرا مین تو شامل ہے ہی اس میں دفاتر میں کام کرنے والے اخبار کے پائلٹ کھلانے والے ایڈیٹرز، سب ایڈیٹرز اور ریذیٹنڈ ایڈیٹزر تک بھی شامل ہے۔

بے روزگار صحافی اور درپیش مشکلات

روزگار ہونے والے صحافیوں کو اس وقت شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کئی صحافییوں نے مجبوری کی حالت میں فیلڈ کو خیر آباد کہہ دیا جبکہ باقی بھی مشکل سے اپنا گزر بسر کر رہے ہیں۔

پشاور پریس کلب سے لئے گئے دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا میں گزشتہ 4 سالوں کے دوران کل 42 صحافی بے روزگار ہوئے ہے جس میں 17 رپورٹرز، 16 کیمرامین ،4 سب ایڈیٹرز،3 ریزیڈنٹ ایڈیٹرز شامل ہیں، بے روزگار ہونے والے صحافیوں میں ایک خاتون صحافی ماریہ تبسم بھی شامل ہے جو بطور رپورٹر اس وقت ایک ادارے کے ساتھ فری لانسر کام کررہی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کل رجسٹرڈ 600 صحافیوں میں 42 صحافیوں کا بے روزگار ہونا ایک بہت بڑا فیگر ہے کیونکہ موجودہ حالت میں کسی دوسرے ادارے میں نوکری ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔

صحافی کامران علی کے مطابق میڈیا اداروں کی حالت ٹھیک ہونے اور مالی پوزیشن مستحکم ہونے کے باوجود بھی نکالے گئے ملازمین کو دوبارہ نوکریوں پر بحال نہیں کیا گیا ہے جس کی ذمہ داری ہمارے یونینز اور پریس کلب پر عائد ہوتی ہے کیونکہ بے روزگار صحافیوں کو روزگار دلانے اور ان کے لئے اب آواز اٹھانے کے لئے کسی نے کوئی اقدام تک نہیں کیا۔

اخبار اور ٹی وی چینلنز بند ہو رہے ہیں؟

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومتی سینسر شپ کے باعث اکثر چھوٹے اخبارات بند ہوگئے جبکہ کچھ نے پشاور میں واقع دفاتر کو بند کرکے اسے بڑے شہریوں کو منتقل کیا، جو رہ بھی گئے وہ دس ملازمین کا کام 5 ملازمین سے لیتے ہوئے اپنا اخبار اور ادارہ چلا رہے ہے۔

اخبار خیبر، جو پشاور میں مشرق اور آج اخبار کے بعد ایک بہترین اخبار تھا، کو بند کر دیا گیا اور اب صرف اسلام آباد سے محدود تعداد میں اس اخبار کو چھپا جا رہا ہے۔ اخبار خیبر کے ساتھ پہلے ہی دن سے کام کرنے والے صحافی جو بعد میں اس کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر بھی بنے محمد الطاف بھی ان صحافیوں میں شامل ہے جنہیں میڈیا کرائسز کے دوران ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے۔ الطاف آج کل گھر پر بیٹھے ہیں اور کسی اچھے ادارے میں نوکری ملنے کے خواہاں ہے۔ الطاف کے قریبی دوست اور ساتھی عبدالحلیم سے اس بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ الطاف وہ واحد صحافی ہے جو نہ صرف اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دیتے تھے بلکہ اخبار کی بہتری کے لئے نئے نئے اقدامات اٹھاتے تھے۔

ان کے مطابق آج کل وہ بے روزگار ہے اور بہت مشکل سے ان کا گزر بسر ہو رہا ہے۔ گزشتہ تقریبا 3 سالوں سے وہ بے روزگار ہے اور اب تک انہیں نہ چھوٹے اور نہ ہی بڑے ادارے سے نوکری ملنے کا موقع ملا ہے۔

صحافیوں کو کیوں ملازمت سے نکالنے کی وجوہات

صحافیوں کی بے روزگاری سے متعلق سنئیر صحافی اور ایڈیٹر روزنامہ کسوٹی امجد عزیز ملک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹیل میڈیا آنے کے بعد خصوصی طور پر پرنٹ میڈیا کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق محکمہ اطلاعات سے اشتہارات مل نہیں رہے جس سے اداروں کو مالی مشکلات اب بھی درپیش ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف اخبارات یا تو بند ہو رہے ہے اور یا ملازمین کی تعداد کم کر رہے ہے۔ ان کے مطابق اب تک ہر صورتحال میں ان کے ادارے نے ملازمین کا ساتھ دیا اور مستقبل میں بھی دیتا رہے گا۔

ان کے مطابق روزنامہ کسوٹی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں تمام تر مشکلات کے باجود بھی کسی کو نہیں فارغ کیا گیا۔ ان کے مطابق اگر حالات مزید خراب ہو جاتے ہے تو پھر مالک مجبور ہوکر ملازمین کو نکالے گا اور اس معاملے میں وہ بطور ایڈیٹر بھی بے بس ہوگا۔ ان کے مطابق وہ صرف اتنا ہی کریں گے کہ ملازمین کو فارغ کرنے سے پہلے وہ خود استعفٰی دیں گے کیونکہ اس کے علاوہ شائد ہی کوئی اقدام ان کی بس میں ہوں۔ ان کے مطابق حالیہ کچھ سالوں میں کئی ٹی وی چینلز پشاور میں اپنے دفاتر بند کرچکے ہیں جن میں بڑے بڑے چینلز شامل ہے اور اسی طرح کئی اخبارات کو بھی تالے لگ چکے ہیں۔

روزنامہ نئی بات ایک نام ہے لیکن مالی مشکلات کے باعث اب روزنامہ نئی بات کو اسلام آباد سے شائع کیا جارہا ہے۔

سنئیر صحافی اور روزنامہ 92 نیوز کے ایڈیٹر ممتاز حسین بنگش کے مطابق ایک وقت تھا جب روزنامہ مشرق کی یومیہ اشاعت 65 ہزار ہوا کرتی تھی اور اسی زمانہ میں روزنامہ آج کی اشاعت 54 ہزار سے زیادہ ہوتی تھی لیکن موجودہ حالات اور مشکلات کے باعث اب یہ اشاعت کم ہوتے ہوتے نصف سے بھی کم ہوگئی ہے۔ ان کے مطابق اگر کہا جائے کہ ان اخبارات کی اشاعت 10 سے 15 فیصد ہی باقی رہ گی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ممتاز بنگش کے مطابق اکثر بڑے اخبارات نے سنڈے میگزین تک بند کردئے ہیں کیونکہ کاغذ کی قیمت کافی بڑھ گئی ہے اور اس کو ملنے والے اشتہارات نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

صحافیوں کو ریلیف دینے کے لئے پریس کلب کے انتظامات

پشاور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عرفان موسی زئی کے مطابق پریس کلب کو بے روزگار صحافیوں کی مشکلات کا علم ہے اسی لئے تمام صحافیوں اور بالخصوص بے روزگار صحافیوں کے لئے رمضان پیکج، عید پیکج اور دوسرے انتظامات کر کے ان کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے لیکن یہ اقدامات ہمیں معلوم ہے کہ یہ ناکافی ہے، کیونکہ مستقل نوکری نہ ہونے کی وجہ سے کب تک اور کیسے پریس کلب ان کو اسپورٹ کرتا رہے گے. ان کے مطابق محدود وسائل میں جہاں تک ممکن ہے پشاور پریس کلب ان کو مالی تعاون فراہم کرنے میں مصروف ہے۔

پشاور پریس کلب کے صدر ارشد عزیز ملک کے مطابق بے روزگار صحافیوں کو روزگار کی فراہمی کے لئے پریس کلب نے بے روزگار صحافیوں کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں ماہر بنانے کے لئے اقداما شروع کئے ہیں تاکہ یہ لوگ ہنر سیکھ کر سوشل میڈیا سمیت دیگر چیزوں پر کام کرکے اپنے پاوں پر خود کھڑے ہو جائے۔ ان کے مطابق متعدد صحافیوں نے اپنے اوپر کام کیا اور مہارت حاصل کی اور اب وہ خود سوشل میڈیا اور دوسری ذرائع سے خوب کمائی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق سابق حکومت کے دوران میڈیا کو کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا یہی وجہ ہے کہ میڈیا مالکان نے اپنے اخراجات کم کرنے اور حکومت پر دباو ڈالنے کے لئے ورکرز کو نوکری سے فارغ کرنے کا فارمولا متعارف کرایا۔ ان کا خیال ہے کہ جب ایک بار کسی بھی ادارے کو معلوم ہوا کہ ان کا کام دو بندوں سے چل سکتا ہے تو وہ کیوں 5 ملازمین کو رکھے اور ابھی یہی ہو رہا ہے کہ ایک بندے سے 3 ،3 بندوں کا کام لیا جارہا ہے۔

بے روزگار صحافیوں کے لئے حکومتی اقدامات 

بے روزگار صحافیوں،ان کو درپیش مشکلات اور انہیں دوبارہ روزگار فراہم کرنے سے متعلق جب وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے دورہ پشاور پریس کلب کے موقع پر سوال پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میڈیا کی تباہی میں گزشتہ حکومت کا ہاتھ ہے، ان کے مطابق گزشتہ حکومت میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ میں نہیں ہوا۔ ان کے مطابق صحافیوں کو درپیش مشکلات کا احساس ہے جتنا ہوسکتا ہے ہم اور ہماری پارٹی کام کر رہی ہے۔ ان کے مطابق پشاور میں پی ٹی وی کی نشتریات کو مقامی صحافیوں کے لئے 24 گھنٹے کر دیا ہے تاکہ مقامی مسائل کو اجاگر کیا جائے اور کسی حد تک مقامی صحافیوں کو روزگار اور مواقع ملے۔

نگران وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا برسیٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل سے بے روزگار صحافیوں سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ اطلاعات کے پاس کوئی دستاویز موجود نہیں ہے کہ گزشتہ کئی سالوں میں کس ادارے سے کتنے صحافی کو بے روزگار کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اب انہوں نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور یہ کمیٹی صحافیوں کے روزگار سمیت دیگر مسائل کو حل کرے پر کام کریں گی، اس کمیٹی میں صحافیوں کے ساتھ ساتھ محکمہ اطلاعات کے آفسران اور اہلکار بھی شامل ہوں گے۔ صحافیوں سے متعلق تمام امور کو دیکھا جائے گا اور پر اس کا حکومتی سطح پر حل تلاش کیا جائے گا تاکہ بے روزگار صحافیوں کو روزگار ملے اور وہ ایک خوشحال پاکستانی بن کر زندگی گزارے۔

یہ سٹوری پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) فلیو شپ کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button