خیبر پختونخوا: نارک جی ون لہسن کی مانگ میں کمی، کاشتکاروں کو خریداروں کی تلاش
بلال یاسر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ( ایف اے او) کے مطابق پاکستان اپنی سالانہ ضرورت پوری کرنے کے لیے لگ بھگ 40 فیصد تک لہسن باہر ممالک سے منگواتا ہے اور گزشتہ تین سالوں میں پاکستان نے لہسن کی خریداری پر اوسطاً سالانہ 12 ارب 81 کروڑ 37 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔
اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسلام آباد میں واقع نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ (نارک) کی جانب سے چند سال قبل لہسن کی نئی قسم ‘نارک جی ون’ دریافت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ ورائٹی پنجاب سمیت پورے پاکستان میں کاشت کی جاسکتی ہے جس کی پیدواری صلاحیت 235 من فی ایکڑ تک ہے۔
کم پیسوں پر زیادہ منافع کمانے کی خاصیت کی وجہ سے یہ قسم ہر خاص و عام کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز بن گئی جبکہ اس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پر کچھ کسانوں نے نارک جی ون لہسن سے کروڑوں روپے کمانے کا انکشاف کیا۔
خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کے وہ غریب کسان جو گندم، مکئی کے فصلوں کے علاوہ سبزیوں، پیاز لہسن اور دیگر چیزوں کو بہت قلیل پیمانے پر کاشت کرتے ہیں وہ بھی اس میدان میں کود پڑے۔
باجوڑ کے آگرہ ماموند سے تعلق رکھنے والے کسان رحمت اللہ نے رواں سال اپنے کھیتوں پر نارک جی ون نامی لہسن کی فصل کاشت کی ہے جس پر ان کے بقول صرف بیج کی مد میں 2 لاکھ روپے سے زائد خرچہ آیا ہے جبکہ کھاد، سپرے، ہل اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں تاہم اب انہیں اپنے یہ پیسے ڈوبتے نظر آ رہے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے رحمت اللہ نے بتایا کہ مارکیٹ میں لہسن کی اس قسم کا کوئی خریدار ہے اور نہ ہی کسان اب اس کو بطور بیج خریدنے کے لیے تیار ہیں، ‘میری فصل بہت اچھی ہوئی، تجرباتی طور پر اس اگائے گئے جی ون لہسن سے مجھے 4 من سے زائد فصل ملی لیکن اب مجھ سے 2800 روپے کلو مانگا جا رہا ہے جبکہ مجھے بیج 9600 کا ملا تھا۔’
تحصیل سلارزئی کے علاقے خرکنو میں گزشتہ کئی سالوں سے زراعت سے وابستہ کسان امین خان کہتے ہیں کہ وہ کئی سالوں سے بھنڈی، ٹماٹر، پیاز، شملہ مرچ اور دیگر سبزیاں کاشت کرتے تھے۔ ان کے بقول سبزی منڈی میں کسانوں سے جی ون لہسن کی بہت تعریف سنی اس لیے کم پیسوں میں زیادہ کمائی کے چکر میں انہوں نے بھی لہسن کاشت کی اور لاکھوں روپے کا بیج لیا، ہزاروں روپے خرچ کیے مگر اب نتیجہ صفر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں جی ون لہسن کا کوئی خریدار نہیں مل رہا اور اگر کوئی مل بھی جائے تو وہ اتنے کم پیسے دے رہا ہے جس سے ان کے بیج کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا۔
اس صورت حال سے متعلق عنایت کلے زرعی فارم کے فیلڈ اسسٹنٹ عبداللہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جی ون گارلک اپنی پیداواری صلاحیت کی وجہ سے ایک شاندار قسم ہے لیکن جب یہ مارکیٹ میں آیا تو اسے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر اس طرح دکھایا گیا کہ جیسے اس فصل کو کاشت کرنے والے راتوں رات امیر ہو جائیں گے۔
ان کے بقول چند مفاد پرستوں نے کسانوں کو بہت سارے خواب دکھائے جس کی وجہ سے انہوں نے بڑھ چڑھ کر جی ون لہسن کاشت کی اور یہی وجہ ہے کہ اب غریب کسانوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، وہی لوگ جو اس کو بیج کے طور پر اتنا مہنگا فروخت کر رہے تھے اب قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔