کھلے عام پیشاب کرنا: ‘مردوں کو ان حرکات سے پرہیز کرنا چاہئے’
ہارون الرشید
تاریخی حیثیت کا حامل تحصیل گور گھٹڑی کے چاروں اطراف کی دیواریں بیت الخلاء میں تبدیل ہوچکی ہیں جہاں کھلے عام رفع حاجت یا پیشاب کی کوئی ممانعت نہیں جبکہ ان مقامات پر خواتین اور بچوں کی عام گرزگاہ، طالبات کا ہائی سکول، اشیاء خوردنوش کی دکانیں، رہائشی مکانات اور ڈاکٹروں کے کلینک بھی واقع ہیں۔
کھلے عام پیشاب کرنے والوں کا موقف
پشاور کے عوامی مقامات باچاخان چوک، چوک یادگار، گور گھٹڑی، گھنٹہ گھر، ہشتنگری، فردوس، حاجی کیمپ اور کینٹ ایریاز میں مرد حضرات کھلے عام پیشاب کرتے نظر آتے ہیں۔ پیشاب سے فارغ ہونے والے افراد سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ صبح سویرے گھروں سے دیہاڑی کے لیے نکلتے ہیں اور شام کو واپس لوٹتے ہیں ایسے میں اگر انہیں راستے میں پیشاب آ جائے تو ایسی جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ان کی پردگی متاثر نہ ہو۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ عوامی لیٹرین کیوں نہیں استعمال کرتے؟ تو انہوں نے کہا کہ عوامی لیٹرین میں صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا جہاں ہر وقت بیکٹریا و جراثیم موجود ہوتے ہیں جبکہ ان بیت الخلاء میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جنہیں مختلف موذی امراض لاحق ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر افراد عوامی لیٹرین کا استعمال نہیں کرتے۔
ایک دوسرے شخص نے دریافت کرنے پر بتایا کہ مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے، عوامی لیٹرینوں میں اپنے پیشاب اور پاخانے پر پیسے دینے سے بہتر ہے کہ بندہ باہر کہیں راستے میں ہی کرلے، انتظامیہ کو چاہیے کہ عوام کے لیے واش رومز کا استعمال بالکل مفت کرے۔
واضح رہے کہ پشاور شہر میں عوامی لیٹرین بنانے کی ذمہ داری لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی ہے یہ لیٹرینز ٹھیکوں پر دیئے جاتے ہیں جہاں رفع حاجت پر 50 روپے اور پیشاب کرنے پر20 روپے لیے جاتے ہیں جبکہ آبادی کے تناسب سے پشاور شہر میں بیت الخلاء کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
عوامی رائے
سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے ٹی این این کو بتایا کہ کھلے عام رفع حاجت کرنا یا پیشاب کرنا وہ امور ہیں جن میں عام شہری پوری طرح ملوث ہیں اول تو حکومت اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے موثر قوانین نہیں بناتی اور اگر قوانین بناتی بھی ہے تو ان کا صحیح طور پر نفاذ نہیں ہو پاتا۔
انہوں نے بتایا کہ ضروری ہے کہ اس طرح کے قوانین بنیں، صحیح طور پر نافذ ہو اور ملک کا ہر شہری اپنی ذمے داری محسوس کرے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو آلودگی سے پاک بنانے کی کوشش کرے اس کے علاوہ اس حوالے سے عوام کے اندر شعور کی بیداری ناگزیر ہے۔
پیشاب کرنا خواتین کے لیے باعث شرم
پشاور میں عوامی مقامات کے علاوہ خواتین کی شاپنگ بازاروں میں بھی مردوں کی جانب سے پیشاب کرنا عام سی بات ہے۔ اس متعلق خواتین بتاتی ہیں کہ یہ صرف یہ ایک نازیبا عمل نہیں بلکہ سماج میں قدم قدم پر کچھ اس طرح کی بے بیہودہ حرکتیں ہوتی نظر آتی ہیں کہ اکثر لوگ بے پردگی و بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرعام پیشاب کےلئے بیٹھ جاتے ہیں ایسے میں اکثر خواتین اور بچوں کی بھی ان پر نظریں پڑتی ہیں اس ناشائستگی کی وجہ سے خواتین کی نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں اور انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،مردوں کو ان حرکات سے پرہیز کرنا چاہئے۔
یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل شفیع مارکیٹ صدر بازار میں ایک مرد کی جانب سے پیشاب کرنے کے معاملہ پر نوبت فائرنگ تک پہنچ گئی تھی۔
گزرگاہوں میں پیشاب کرنا جائز ہے یا نہیں؟
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” لعنت کے دو کاموں سے بچو۔ “ صحابہ کرام نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! لعنت کے وہ کون سے دو کام ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” جو لوگوں کے راستے میں یا ان کے سائے میں پاخانہ پیشاب کرتا ہے۔
اس حوالے سے مفتی جمال الدین نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے اور اس کی تکریم کی ہے، معاشرے کے اندر بے شمار قباحتیں ایسی ہیں جو انسان کی تذلیل وتحقیر کی وجہ بنتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ انسان ہر اس عمل سے خود کو دور کھے کہ جو اخلاقیات کے زمرے میں نہ آئے اور جس کی وجہ سے اس کی بے توقیری ہو۔
ان کے مطابق عام گزرگاہوں میں پیشاب کرنا غیر شرعی عمل ہے جس کا اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔
پیشاب کا انسانی صحت پر منفی اثر
ماہرین صحت کے مطابق عوامی مقامات پر پیشاب کرنا صحت کے لیے تشویشناک ہے، پیشاب کی بو ناگوار ہے اور یہ بدبو آلودگی میں بھی شامل ہوتی ہے، کئی ترقیاتی ممالک میں گزرگاہوں پر پیشاب کرنا جرم ہے کیونکہ پیشاب کرنا اگر ایک طرف صحت عامہ کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف معیشت اور سیاحت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ان کے بقول پیشاب دیواروں اور کنکریٹ پر داغ چھوڑ دیتا ہے اور اگر آپ کو پیشاب کی نالی کا انفیکشن ہے تو آپ کے پیشاب میں موجود بیکٹیریا پھیل کر دوسرے لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں اور بیماری کا باعث بن سکتے ہیں۔
اگر آپ مٹی پر پیشاب کرتے ہیں تو بیکٹیریا ایک زرخیز افزائش کی جگہ حاصل کرتے ہیں اور اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ کھیلنے والے بچے اپنے ہاتھوں سے مٹی کو چھو سکتے ہیں یا ننگے پاؤں کھیل سکتے ہیں تو انہیں بھی انفیکشن ہو سکتے ہیں۔
پیشاب میں یوریا کی مقدار مکھیوں، کیڑوں اور کاکروچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے جن کے ذریعے بیکٹریا پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے جبکہ یہ کیڑے بیکٹیریا کھانے اور پانی میں منتقل کر سکتے ہیں۔