دیربالا: گرمی کی شدت میں اضافہ، مقامی افراد نے دریائے پنچکوڑہ کا رخ کرلیا
ناصر زادہ
خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح دیربالا کو بھی گرمی کی حالیہ لہر نے اپنی لپٹ میں لے لیا ہے جس کے باعث مقامی افراد نے گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے دریائے پنچکوڑہ کا رخ کرلیا تاہم دریائے پنچکوڑہ میں کم عمر بچے بغیر کسی سیفٹی نہاتے ہیں جس کی وجہ سے ناخوشگوار واقعات رونما ہورہے ہیں۔
دیر بالا کے علاقے داروڑہ سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ عبدالرزاق نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث اب دیر بالا میں مردان اور پشاور جیسے گرمی کی لہر چل رہی ہے کیونکہ اس سال پہاڑوں پر پڑی برف بھی وقت سے پہلے پگل گئی ہے اور جون میں معمول سے زیادہ گرمی محسوس ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے بچے اور بڑے دریائے پنچکوڑہ کا رخ کرتے ہیں تاہم مناسب انتظامات نا ہونے اور بچوں کی بے اختیاطی سے گزشتہ ہفتے دو بچے نہاتے ہوئے ڈوب گئے تھے جن میں ایک کی لاش نکل لی گئی جبکہ دوسرے بچے کی تلاش تاحال جاری ہے۔
ان بچوں کی شناخت 14 سالہ عماد اور دس سالہ موسیٰ کے ناموں سے ہوئی ہے۔
بیوڑ سے تعلق رکھنے والے موسیٰ کے والد الطاف نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کا بیٹا دیگر بچوں کی ساتھ دریائے پنچکوڑہ میں نہانے کے لیے گیا تھا جہاں وہ تیز لہروں کی نظر ہوگیا ہے۔ ان کے مطابق الخدمت فاونڈیشن اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے آپریشن شروع کردیا ہے لیکن ان کے بیٹے کی لاش تاحال نہ مل سکی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال موسم گرما میں بھی 16 افراد دریائے پنچکوڑہ کی تیز لہروں کا شکار ہوئے تھے جن میں واڑی سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائی بھی شامل تھے۔ ان افراد میں ایک سکول ٹیچر رضاء اللہ کی لاش چودہ ماہ بعد دریائے پنچکوڑہ سے نکال لی گئی تھی۔
دوسری جانب ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر شاہ ولی خان نے ٹی این این بتایا کہ دریائے پنچکوڑہ میں حادثات اکثر لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال واڑی کے مقام پر کالج کے دو طلبہ، جو سگے بھائی تھے، دریائے پنچکوڑہ میں نہا رہے تھے کہ اس دوران ایک نوجوان دریائے میں ڈوب گیا اور دوسرا بھائی ڈوبنے والے بھائی کو بچاتے ہوئے خود ڈوب کر جاں بحق ہوگیا۔
ادھر پی ڈی ایم اے نے بھی دیربالا اور چترال کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہے کہ موجود گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے گلیشئر پگھلنے کا خدشہ اور دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے اس لیے شہروں کو اختیاط کرنا چاہئے۔