سوات کی پہلی مگس بان خاتون سیلاب سے کیسے متاثر ہوئی؟
عبدالستار
سوات کے علاقہ تھانہ سے تعلق رکھنے والی نسرین خان کہتی ہیں کہ بہت کامیابی کے ساتھ شہد کی مکھیوں کا کاروبار شروع کیا تھا جس کا مقصد اپنے شوہر کے ساتھ اخراجات میں مدد کرنا تھا لیکن دریائے سوات کے بے رحم سیلابی ریلے ان کے شہد کی مکھیوں کے آدھے بکس بہا لے گئے۔
گزشتہ سات سالوں سے مگس بانی کرنے والی نسرین خان نے ٹی این این کو بتایا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث انہوں نے شوہر کے ساتھ گھر کے اخراجات میں تعاون کرنے کی سوچ سے شہید کی مکھیوں کو پالنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے۔
ان کے بقول شروع میں لوگوں کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ انہیں یہ باتیں بھی سننی پڑی کہ مگس بانی خاتون کا کام نہیں ہے تاہم اس کے باوجود انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا کاروبار سات بکس سے 4 سو بکس تک پہنچ چکا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ مگس بانی سے حاصل ہونے والی رقم پر انہوں نے اپنے لیے گھر، گاڑی اور کچھ زمین بھی خرید لی تھی اور ان کا ماننا ہے کہ خواتین مردوں سے کسی صورت میں کم نہیں ہے اور اگر کوئی خاتون چاہے تو شہد کی مکھیاں پال سکتی ہے۔
نسرین کے بقول وہ اپنی شوق سے مگس بانی کرتی ہے جبکہ ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی اسی کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب علاقے کے دیگر خواتین بھی ان سے رابطے کررہی ہیں اور مجھ سے اس کاروبار کے حوالے سے معلومات لے رہی ہیں۔
نسرین خان نے کہا کہ گزشتہ سال 25 اگست کو سوات کے اپر علاقوں سے آنے والی سیلابی ریلے ان کے دو سو بکس بہا کر لے گئے جس سے ان کا تیس لاکھ روپے تک نقصان ہوگیا کیونکہ بکس میں شہد تیار تھا جس پر خرچہ تیس لاکھ روپے تک آیا تھا جبکہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اپنی گاڑی اور گھر کو بھی بھیچنا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت گرمی کا سیزن چل رہا تھا اس لیے ہم نے دیگر لوگوں کی طرح اپنے مکھیوں کے بکس کو دریائے کے کنارے رکھ دئے تھے لیکن اچانک سیلابی ریلہ آنے کے بعد سارے بکس سیلاب اپنے ساتھ بہا لے گئے جس سے مگس بانی سے وابستہ لوگوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔
نسرین خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہمیں شہد کے کاروبار میں مشکلات کا سامنا ہے، کھبی بارشیں زیادہ ہونے کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں تو کھبی گرمی کے دنوں میں سرد موسم کی وجہ سے شہد نکالنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ امداد کی گئی لیکن شہد کی مکھیوں کے کاروبار کرنے والے لوگوں کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شہد کی مکھیوں کے کاروبار کرنے والے افراد کے ساتھ تعاون کریں تاکہ وہ اپنے کاروبار کو دوبارہ بڑھا سکے۔