لائف سٹائل

جنس کے بدلے جنس: پاک افغان تجارت میں بارٹر ٹریڈ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ریحان محمد

پاکستان نے حال ہی میں افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ بارٹر ٹریڈ شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

پاکستان کی وزرات تجارت نے ایک نوٹیفکیشن میں یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے اور درآمدت کے کے لئے ملکی بینکوں میں ڈالر کی شدید قلت ہے۔ دوطرفہ تجارت کے اس پالیسی کے حوالے سے تاجر برادری کا ملا جل ردعمل سامنے آرہا ہے جبکہ افغان حکومت نے اس کو یک طرفہ فیصلہ قرار دیگر موقف اپنایا ہے کہ اس پوری صورتحال کا جائزہ لیکر مستقبل کے حوالے سے پاک افغان تجارت کے بار ے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ موجودہ وقت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک حد تک غیر رسمی طوپر بارٹر ٹریڈ ہورہا ہے تاہم اس کو حکومتی سرپرستی حاصل نہیں۔

سرحد چمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر اور تاجر زاہد شینواری کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ حکومتی سطح پر کوئی طریقہ کار نہ ہونے کے باوجود غیر رسمی طور پر بارٹر ٹریڈ کے اصولوں کے مطابق تجارت ہوتا ہے اور یہ کافی سود مند تجربہ رہا ہے۔ اُن کے بقول ایسے زرعی اجناس پر کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی ری فنڈ کا مسئلہ نہیں ہوتا اس لیے یہ طریقہ مفید ہے۔

سید محمد پاکستان سے سیمنٹ افغانستان برآمد کررہا ہے جبکہ وہاں سے کوئلہ درآمد کرکے سیمنٹ انڈسٹری کو مہیا کررہا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ 2021 میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد بینک کا نظام متاثر ہونے کے بعد اس طریقہ کار پر تجارت شروع کر دی ہے کیونکہ ڈالر کی ترسیل ممکن ہی نہیں البتہ بعض اوقات مال کے بدلے مال کے مالیت میں کمی بیشی کے لئے پیسے ہنڈی کے ذریعہ وصول یا بھیجا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بارٹر ٹریڈ صرف اُن تاجروں کے لئے فائدہ مند اور آسان ہے جو ایسے کاروبار سے وابستہ ہو جو کہ برآمدات کیا گیا مال کے بدلے وہ درآمد شدہ مال اُن افراد کے صنعت کو مہیا کریں جن سے وہ مال خریدتا ہے۔

خیال رہے کہ 18 نومبر 2022 کو ایف بی آر نے ملٹی موڈل ایئر لینڈ کوریڈور کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا تھا جس کے تحت اب افغانستان کو فضائی راستے کے ذریعے سامان کی ترسیل کی اجازت ہوگی۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ملٹی موڈل ایئر لینڈ کوریڈور کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ گڈز کے لیے پاکستانی ایئرپورٹ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔

عالم زیب پاک آفغان جائنٹ چمبر اینڈ کامرس کا سرگر م رکن ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے اعلی سطحی اجلاسوں میں افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے اصولوں کے مطابق تجارت شروع کرنے کی بات ہوتی تھی تاہم تاجر برادری اس فیصلے کے نفاذ کے سخت مخالفت کرتے آرہے تھے کیونکہ اس طریقہ کار میں دونوں ممالک کے تاجروں کو کافی زیادہ مسائل کا سامنا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت بارٹر ٹریڈ کے فیصلے کا فائدہ ریاست کو زیادہ اور تاجروں کو کم ہوگا کیونکہ ملک میں افغانستان، ایران اور روس کے ساتھ تجارت کے لئے ڈالر دینا نہیں پڑے گا جبکہ اس وقت ملک توانائی کی بحران پر قابو پانے کے لئے تیل اور گیس کی درآمد سے کچھ حد تک اس مسئلے پر قابو پالے گا۔

افغانستان کے وزارت تجارت کے ایک اعلی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایا کہ پاکستان کا بارٹر ٹریڈ کا فیصلہ یک طرفہ ہے اور تاجر برادری کے ساتھ مل بیٹھ کر ان کے تمام پہلو کا جائز لیکر ختمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی اسلام آباد کے کئی ایسے فیصلے تھے جن کو افغان حکومت رد کرچکے جن میں ایک فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت پاکستانی کرنسی میں کرنا تھا۔ اُنہوں واضح کیا کہ موجود وقت میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے تجارت میں ساٹھ فیصد برآمدات افغانستان جبکہ چالیس فیصد درآمد پاکستان سے ہے جوکہ کافی زیادہ فرق ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا کہ افغان حکومت اور تاجر برادری بارٹر ٹریڈ کے اس نئے پالیسی کے تحت تجارت کے لئے تیار ہوگی۔

پاکستان کے وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ پر موجود امپورٹرز اور ایکسپورٹرز اس بارٹر ٹریڈ کے اہل ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے امپورٹرز کو افغانستان سے پھل، خشک میوہ جات، سبزیاں، دالیں، مرچیں، معدینات، دھاتیں، کوئلہ، خام ربڑ آئٹمز، کھالیں، لوہا اور سٹیل درآمد کرنے کی اجازت ہو گی۔ ایران سے پھل، خشک میوہ جات، مرچ مصالحے، معدینات، دھاتیں، کوئلہ، پٹرولیم، خام تیل، ایل این جی، ایل پی جی، کیمیکل، فرٹیلائزرز، پلاسٹک، ربڑ، لوہے اور سٹیل کے ساتھ کچھ اور اشیا درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ روس سے دالیں، گندم، کوئلہ، پٹرولیم بشمول خام تیل، ایل این جی، ایل پی جی، فرٹیلائزرز، پلاسٹک، ربڑ، معدینات، دھاتیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری مشینری، لوہے اور سٹیل کی درآمد کی اجازت دی ہے۔

سید محمد طورخم میں کسٹم ایجنٹ ہے۔ اُن کے بقول موجودہ وقت میں پاک افغان تجارت کے توزان میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان سے مختلف اشیائے کے تین سے ساڑھے تین سو ٹرک روزانہ جاتے جبکہ افغانستان سے موجودہ وقت میں کوئلہ، سوپ سٹون اور خوبانی کے تین سو سے زیادہ مال بردار گاڑیاں پاکستان آتی ہیں۔

اُن کے بقول ماضی میں پاکستان سے پندرہ سو گاڑیاں افغانستان جاتی تھی جبکہ وہاں سے دو سو سے زیادہ گاڑیاں روزنہ آتی تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ دوطرفہ تجارت میں مسائل کی بناء پر پاک افغان تجارتی حجم نچلے درجے تک پہنچ چکا ہے۔

زاہد شینواری کے بقول سرحد چیمبر آف کامرس کئی سال پہلے بارٹر ٹریڈ شروع کرنے کے حکومت اداروں کے ساتھ مشاورت کرتی رہی اور اس بنیاد پر ایران کے ساتھ کچھ حد تک تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئی تاہم اس عمل کو موثر بنانے کے ایسے کچھ حاص اقدمات نہیں کرائے گئے کہ جس کے بنیاد پر منصوبہ کامیاب ہوسکے۔ اُنہوں نے کہا کہ موجودہ فیصلے سے بھی چیمبرز اور تاجر رہنماؤں کو بے خبر رکھا گیا اور ماضی میں بھی اس قسم کے فیصلے ہوتے رہے جن کے نتائج تباہ شدہ معیشت قوم کے سامنے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آگر اس نئے منصوبے کو کامیاب بنانا ہوگا تو ماضی کے غلطیوں کو حکومتی سطح پر نہیں دہرنا چاہیے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان کے درآمدات سالانہ 80 ارب ڈالر جبکہ اس کے مقابلے میں برآمدات 20 ارب ڈالر ہے۔ ماہرین کی مطابق برآمدات اور درآمدت میں اتنا بڑا فرق کسی بھی ملک کے معیشت کے لئے نیک شگون کی علامت نہیں۔

بارٹر ٹریڈ دو ملکوں کے درمیان تجارت کا پرانہ طریقہ کار

زاہد شینواری کا کہنا ہے کہ بارٹر ٹریڈ دو ملکوں کے درمیان تجارت کا پرانہ طریقہ کار ہے جس میں جنس کے بدلے جنس یعنی مال کے بدلے رقم نہیں بلکہ مال لیا جاتا ہے۔ اُن کے بقول موجودہ وقت میں امریکہ اور میکسیکو کے علاوہ بھی کئی ممالک کے درمیان یہی طریقہ تجارت نفاذالعمل ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاک افغان دوطرفہ تجارت میں یہی طریقہ اس وجہ سے سود مند ثابت ہوسکتا ہے کہ دوسرے نظام تجارت میں ڈالر کے لئے بینک اکاونٹ کے ساتھ رقم کے ترسیل کے لئے طویل اور مشکل عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

بارٹر ٹریڈ میں مسائل 

عالم زیب کا کہنا ہے کہ حکومت بیرونی ممالک کے ساتھ اور خصوصا افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے کبھی ایک پالیسی اور کبھی دوسرے پالیسی بنا لیتا ہے تاہم اب تک کسی بھی پالیسی پر مکمل عمل درآمد کے لئے سازگار ماحول اور سہولت تاجر برادری کو مہیا نہیں کیا جس کے وجہ سے روز بروز پاک افغان تجارت زوال پزیر ہو رہا ہے۔ اُن کے بقول بارٹر ٹریڈ کے تحت کاروبار کرنا آسان نہیں کیونکہ ایک تاجر پاکستان سے مال لے جاتا ہے جبکہ وہاں سے وہ مال نہیں لے سکتا کیونکہ اُن کے پاس پاکستان میں بھیجنے کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ اُن کے بقول اس کا فائدہ کچھ خاص قسم کے تاجروں کو ہوگا جو وہاں پر سیمنٹ یا سریا بھیج کر وہاں سے کوئلہ لاکر انڈسٹری بھیج سکتا ہے۔

زاہد شینواری کا کہنا ہے کہ اب تک مذکورہ پالیسی پر عمل درآمد کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرائے گئے تاہم ماضی دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اتنے زیادہ مسائل موجود ہے کہ دونوں جانب کے تاجر دل برداشت ہوچکے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ نئے تجارتی پالیسی تب کامیاب ہوسکتاہے کہ ماضی کے علطیاں نہ دہرائی جائے۔

عالمی پابندیوں کے باوجود تینوں ممالک کے ساتھ تجارت ممکن ہے؟

پاکستان نے جن تین ملکوں کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت دی ہے ان میں روس، افغانستان اور ایران مختلف قسم کی بین الاقوامی پابندیوں کے شکار ہیں۔ افغانستان میں سنہ 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد سے سفارتی پابندیاں لگی ہوئی ہیں تو ایران پر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے کئی سالوں سے پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کی وجہ سے روس بھی کئی بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہے۔ ان تینوں ملکوں پر بین الاقوامی پابندیوں کے تناظر میں پاکستان کی جانب سے ان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت کے بارے میں بات کرتے ہوئے زاہد شنیوری نے کہا کہ خطے اور دنیا کے کئی ممالک ہیں جن پر بین الاقومی سطح پر سخت پابندیاں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ دنیا کے ساتھ تجارت کرتی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ پابندیوں کے باجود بھی ایران بڑے مقدار میں تیل اور گیس چین اور ہندوستان کو برآمد کررہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی حکومت عالمی سطح پر بدلتے حالت پالیسوں کی بدولت کچھ اقدامات نہیں اُٹھاسکتے تھے تاہم اب ملک سخت معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے اور خطے کے ممالک کے درمیان تعلق نئے ترجیحات کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button