جرائم

خیبرپختونخوا میں منشیات سمگلنگ میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟

 

ذیشان کاکاخیل

تمام تر کوششوں کے باوجود بھی خیبرپختونخوا کو منشیات سے پاک نہ کیا جاسکا۔ خیبرپختونخوا میں جہاں پولیس اور متلعق ادارے منشیات فروشوں،منشیات استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے تو وہی ملزمان بیس بدل کر منشیات سمگل کرنے میں مصروف ہیں اور کیسز میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

محکمہ ایکسائز حکام کے مطابق ملزمان کا ایک منظم گروہ ایسا ہے جو مختلف طریقوں سے اور حلیہ بدل کر منشیات خیبرپختونخوا سے ملک کے دوسرے صوبوں کو سمگل کرنے میں مصروف ہیں۔ حکام کے مطابق حالیہ رپورٹ ہونے والے متعدد واقعات کے بعد ایکسائز،پولیس،اینٹی نارکوٹکس کے اہلکار بھی کافی محتاط ہوگئے ہے کیونکہ منشیات سمگلر اب پہلے سے زیادہ ہوشیار ہوگئے ہیں اور اب وہ ایسے طریقے اپنے لگے ہے جس سے آسانی سے وہ منشیات سمگل کرسکتے ہے۔

ان کے مطابق ملزمان ایسے طریقے اپنانے میں مصروف ہے جس کا پولیس،ایکسائز اور دوسرے ادارے سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی ان اداروں کو شک تک پڑتا ہے۔ ایکسائز حکام کے مطابق کبھی سیکورٹی اداروں کے یونیفارم میں تو کبھی پولیس اور دوسرے اداروں کے روپ میں منشیات سمگلرز کی گرفتاری کے کیسز سامنے آرہے ہیں جو بہت حیران کن اور خطرناک ہے۔

کچھ ماہ قبل یعنی 21 اپریل 2023 کو سیکورٹی ادارے کا یونیفارم پہن کر خود کو ایک اعلیٰ آفسر ظاہر کرنے والا ملزم تھانہ ایکسائز مردان نے گرفتار کیا جو 5 بوریوں میں بند لاکھوں روپے مالیت کے 60 کلوگرام چرس ملک کے دوسرے صوبوں کو لے جارہا تھا۔ گرفتار ملزم اقبال ولد فرمان علی نے گرفتاری کے بعد اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے قبل بھی تقریبا 10 یا اس سے زیادہ بار اسی طریقے سے پولیس اور اداروں کو دھوکہ دیتے ہوئے منشیات سمگل کرچکے ہے۔ ان کے مطابق پاک فوج کی وردی میں ان کاو 100 فیصد یقین تھا کہ کوئی نہیں پکڑے گا اور نہ ہی کسی کو شک تک پڑے گا۔ محمد ریاض ایس ایچ او تھانہ ایکسائز مردان کے مطابق حلیہ بدل کر منشیات سمگل کرنے کے کیسز زیادہ تر واقعات مردان،چارسدہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں رونما ہوتے ہیں کیونکہ منشیات کو پڑوسی ملک افغانستان یا سابق قبائلی اضلاع سے موٹر وے یا جی ٹی روڑ براستہ مردان منتقل کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں اور اسی دوران انہیں پکڑ لیا جاتا ہے۔

پشاور کے تھانہ چمکنی کے مطابق جون 2022 میں ایک ملزم جن کا تعلق ملتان سے تھا وہ سواریوں کے روپ میں منشیات سمگل کررہا تھا جسے گرفتار کرکے ہزاروں گرام چرس برآمد کی گئی تھی۔
اسی طرح شانگلہ الپوری میں سال 2020 میں ایک کارروائی کی گئی تھی جہاں سرکاری گاڑی سے منشیات برآمد کی گئی تھی۔ ملزم شمس القمر خود کو پولیس سروس گروپ آف پاکستان کا اعلیٰ افسر ظاہر کر رہا تھا جسے شک کی بناء پر روک کر چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ منشیات سمگل کررہا تھا۔

منشیات کیسز اور سزا
محکمہ داخلہ کو محکمہ ایکسائز کی جانب سے جمع کئے گئے ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ 7 سالوں کے دوران ہزاروں کلوگرام چرس،ہیروئن ،افیون ،آئس سمگل کرتے ہوئے برآمد کئے گئے ہے۔ محکمہ داخلہ دستاویز کے مطابق خیبرپختونخوا میں منشیات کے استعمال اور سمگلنگ کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق 2017 سے 2022 تک چرس کی سمگلنگ اور استعمال کے کیسز میں 150 فیصد اضافہ ہوا۔
ہیروئن کے استعمال اور سمگلنگ میں 200 فیصد، اسی طرح افیون کی کیسز میں 250،آئس اور شراب نوشی کے کیسز میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق سال 2017 میں 964 کلوگرام چرس سمگل کرتے ہوئے ملزمان کے قبضے سے برآمد ہوئے تھے جس میں اضافہ ہوتے ہوئے سال 2022 میں 2741 کلو گرام چرس برآمد ہوئی ہے۔
6 سال قبل 56 کلوگرام ہیروئن برآمدگی کے واقعات پیش آئے تھے جبکہ اس میں اضافہ ہوتے ہوئے اب 2022 میں 314 کلو گرام ہیروئن برآمدگی کے کیسز رپورٹ ہوئی ہے۔
2017 سے 2022 تک کروڑوں روپے مالیت کے 82 کلو گرام آئس برآمد کرلی گئی ہے،محکمہ داخلہ کو جمع کی جانے والی رپورٹ کے مطابق اب تک 12 سو 43 کیسز بنائے گئے اور 1381 افراد گرفتار ہوئے۔ذرائع کے مطابق منشیات کے کیسز میں گرفتار اکثر ملزمان با آسانی چھوٹ جاتے ہے یہی وجہ ہے کہ وہ منشیات کے سمگلنگ کے کاروبار سے باز نہیں آتے ہے۔

منشیات کے عادی افراد کے لئے بحالی پروگرام

خیبرپختونخوا کو منشیات سے پاک کرنے کے لئے ابتدائی طور پر پشاور سے منشیات بحالی پروگرام شروع کیا گیا جس کے فیز 1 کے لئے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے تمام بحالی مراکز کو کھانے کے لئے ہفتہ وار مینیو کا شیڈول جاری کیا گیا تھا تاکہ کسی منشیات کی لت میں مبتلا افراد کو تکیلف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ذرائع ڈپٹی کمشنر آفس کے مطابق اس پراجیکٹ کو نہ صرف پشاور بلکہ پوری خیبر پختونخوا تک پھیلانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن فنڈز کی کمی اور کئی دوسری وجوہات کی بناء پر اس منصوبے کو مزید نہیں پھیلایا گیا۔ ذرائع کے مطابق پشاور کے سڑکوں ،چوک چراہوں اور پلوں کے نیچے سے نشئی افراد کو اٹھا کر انہیں بحالی مرکز منتقل کیا جاتا جہاں انہیں ایک ذمہ دار شہری بنانے پر کام کیا جاتا تھا۔ذرائع کے مطابق تقریبا اس منصوبے میں اس وقت 80 فیصد کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے اور نگران حکومت آنے کی وجہ سے اب یہ منصوبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے فیز 2 کا دورانیہ مکمل ہونے پر غازیوں کو اپنے گھرانوں کے حوالے کرنے کے لیے کوئی بڑا پروگرام کا اہتمام ہی نہیں کیا گیا ہے۔

 

سوشل ویلفیر کے ایک افسر کے مطابق منشیات سے پاک مہم کے دوران 13 سو افراد کی بحالی کی گئی لیکن اس میں 1 ہزار سے زائد عادی افراد دوبارہ منشیات کی لت میں مبتل ہونے کا انکشاف ہوا ہے  جس سے نہ صرف حکومت کے پیسے ضائع ہوئے بلکہ جس مقصد کے لئے منشیات بحالی کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا وہ مقاصد بھی حآصل نہ ہوسکے ہے۔ذرائع کے مطابق منصوبے کو جلدی میں شروع کیا گیا علاج معالجہ کے بعد مریضوں یا منشیات کے عادی افراد پر چیک نہ رکھنے کے باعث وہ دوبارہ نشے میں مبتلا ہوگئے ہے۔

پیسے ضیاع بغیر منصوبہ بندی
ذرائع کے مطابق حکومت نے منشیات کے عادی افراد کو سرکاری بحالی اداروں کو دینے کی بجائے نجی اداروں کے حوالے کئے تھے جہاں فی مریض پر سرکاری کے مقابلے میں کافی زیادہ پیسے خرچ ہوئے اور نتائج بھی وہ برآمد نہ ہوئے جو ہونے چاہیے۔ذرائع کے مطابق 6 نجی اداروں کو منشیات میں مبتلا مریضوں کی بحالی کا ٹاسک دیا گیا جس پر فی مریض کے حساب سے 30 ہزار فی مہینہ خرچ ہوا۔

سرکاری منشیات بحالی سنٹر

فقیر آباد پشاور میں سرکاری منشیات بحالی سنٹر کے انچارج جواد کے مطابق انہیں منشیات سے پاک پشاور مہم کے دوران 210 افراد کے بحالی کی ذمہ داری دی گئی اور ان سب کی بحالی کی گئی۔ان کے مطابق زیادہ تر لوگ جبری بحالی کے حق میں نہیں کیونکہ جبری بحالی میں 90 فیصد امکان ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ منشیات کی لت میں مبتلا ہو جائے۔جواد کے مطابق انہوں نے ایسے کئی کیس دیکھے ہے کہ جبری طور پر اس کی بحالی تو کی گئی ہے لیکن وہ دوبارہ منشیات کا استعمال شروع کردیتا ہے۔جواد کے مطابق اس وقت ان کی بحالی سیںتر میں 48 مریض زیر علاج ہے اور ان کی بحالی پر کام شروع ہے۔ ان کے مطابق فنڈز کی عدم ادائیگی کے باعث انہوں نے نئے مریض داخل کرانے سے انکار کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق نجی اداروں کی جگہ منشیات کی بحالی کی ذمہ داری سرکاری اداروں کی دی جاتی تو سرکاری اداروں کو فائدہ ہو جاتا۔

منشیات کاروبار ختم کرنے کا آخری حل
ماہرین صحت کے مطابق جب تک منشیات کے اڈوں کو ختم نہ کیا جائے اسی وقت تک منشیات کے عادی افراد کی بحالی اور متعلقہ حکام کی کارروائیاں بے سود ہیں۔ سینئر ڈاکٹر اور جنرل فیزیشن ڈاکٹر امجد تقویم کے مطابق منشیات فروش کو ختم کئے بغیر منشیات سے پاک معاشرے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان کے مطابق منشیات بنانے اور سپلائی کرنے والوں کو ختم کیا جائے تو منشیات کے عادی افراد میں کود بخود کمی آجائے گی۔
تھانہ ایکسائز مردان میں بطور انسپکٹر ڈیوٹی سرانجام دینے والے کامران کاظمی کا کہنا ہے کہ منشیات سمگلر ہوشیار ہوگئے ہیں اور اب وہ روایاتی طریقوں کی جگہ نت نئے طریقے اپنا کر منشیات سمگل کرنے میں مصروف ہے۔ ان کے مطابق اکثر اوقات بڑے بڑے سمگلر پولیس،پاک فوج،سراکری اہلکار بن کر منشیات سمگل کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں جس کو روکنا بعض اوقات ممکن نہیں ہوتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button