ضلع کرم میں ٹارگٹ کلنگ اور ‘فرقہ وارانہ جنگوں’ کے وجوہات کیا ہیں؟
ریحان محمد
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں شعیہ سنی فسادات کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ فسادات برصغیر پاک و ہند کے تقسیم سے پہلے 1938 سے ہو رہے ہیں جس میں اب تک سینکڑوں کی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق اس زمانے میں یہ جنگیں دو تین یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے تک جاری رہتی تھی جس کے بعد دونوں فریقین ملکر ایک دوسرے کے علاقے میں رہتے اور پرامن زندگی گزارتے لیکن 9/11 کے بعد جس طرح دیگر قبائلی اضلاع میں بدامنی کے حالات پیدا ہوگئے وہی ضلع کرم میں بھی بدامنی کی لپیٹ میں آیا۔ ضلع کرم میں بدامنی دیگر قبائلی اضلاع سے مختلف تھی کیونکہ یہاں شعیہ سنی فسادات کی شکل میں سالوں تک لڑائیاں جاری رہتی تھی جبکہ اس دوران چار سے پانچ سال تک ٹل پارہ چنار روڈ مکمل طور پر بند تھا۔
اسی طرح پچھلے سالوں سے ضلع کرم میں ہر ماہ کوئی نہ کوئی واقع رونماء ہوتا ہے جس کی وجہ سے پورے ضلع میں آگ بھڑکنے کا خطرہ ہوتا ہے تاہم ابھی تک شعیہ سنی فسادات کو ختم کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائیں گئے جس سے مقامی لوگ مطمئن ہوسکیں۔
ماضی کی طرح کرم میں حالیہ دلہراش واقعے کے بعد اگر ایک طرف ایک نئی جنگ چھڑ گئی تو دوسری جانب اس واقعہ کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ تجارت بند ہوا اور علاقے میں جاری میٹرک کے امتحانات بھی غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے 4 تاریخ کو ضلع کرم میں دو مختلف واقعات میں سکول اساتذہ سمیت 8 افراد کو قتل کردیا گیا تھا۔
تاریخی پس منظر
ضلع کرم میں 2007 کے بعد ہونے والے جھڑپوں میں ہزاروں کے تعداد میں شعیہ سنی نے ایک دوسرے کے گھر جلا دئے تھے جبکہ ان تمام واقعات کے بعد حکومت اور قبائلی عمائدین جرگے کے ذریعے حل نکالتے اور علاقے میں امن بحال ہوتا تاہم پچھلے 10 سالوں سے جاری تنازعات کے باعث پورے ضلع میں راستے، موبائل نیٹ ورک، تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہوجاتے ہیں جس کی وجہ عوام کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
یہی نہیں اس طرح کے تنازعات اور ٹارگٹ کلنگ کے بعد ضلع کے دوسرے علاقوں میں بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر قتل کر دئے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر سیف الاسلام کا موقف ہے کہ یہ واقعات زمینی تنازعہ پر پیش آئے۔ ان کے مطابق ان واقعات کا لنک گیدو مینگل قوم (سنی) اور پیواڑ (شعیہ) قوم کے درمیان 2009 سے شاملاتی جائیداد پر تنازعے کا ایک سلسلہ ہے جس میں اس سے پہلے بھی کئی بار جھڑپیں ہوئی ہے۔
مینگل ویلفیئر کمیٹی کے رکن عبدالقادر کا کہنا ہے کہ اس مسلے پر کئی بار جنگ ہوئی ہے جس میں اب تک دونوں جانب 25 سے زیادہ افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ جرگوں کے فیصلوں کے علاوہ اس تنازعے کا کیس عدالت میں بھی زیر سماعت ہے جس کے لیے کمیشن بھی بنایا گیا تھا۔
ان کے بقول اس کے علاوہ اپر کرم مقبل قوم، بوشہرہ، پاڑہ چمکنی، بالش خیل، کونج علیزئی سمیت دیگر چھوٹے گاؤں کے آپس میں جائیداد کے تنازعات ہیں جس پر بھی اکثر جھڑپیں ہوئی ہیں لیکن ان جائیدادوں کے فیصلے ابھی تک نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت دوبارہ جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان کے مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرے اور ہر جگہ اپنا رٹ قائم کرکے ان واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
چند ماہ پہلے بھی بوشہرہ سنی اقوام اور پارا چنار شعیہ اقوام کے درمیان جائیدار کے تنازعے پر جھڑپ ہوئی جس میں 4 افراد مارے گئے۔ حالیہ جھڑپ کی طرح اس جھڑپ کے بعد بھی پورے ضلع کے راستے بند ہوگئے تھے اور چند شرپسند عناصر فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے تھے۔
اس سے پہلے ضلع کرم کے صدہ بازار میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں شعیہ کمیونٹی کے ایک فرد کو لوگوں نے حراست میں لے لیا تھا جس کو بعد میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے بچا لیا تاہم اس دن صدہ بازار میں پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی تھی اور پولیس کی جانب سے فائرنگ کے دوران سکول کا بچہ مارا گیا تھا۔
مری معاہدہ
دو ہزار دس اور گیارہ میں شعیہ سنی کے درمیان مری معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں فرقوں نے اس بات کی یقین دہانی دی تھی کہ جائیداد کے تنازعات کے حل میں سرکای جگہوں اور سڑک پر کسی کو ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا جبکہ ایک گاؤں کے تنازعہ کی وجہ سے پورے ضلع میں جنگ مسلط نہیں کی جائے گی۔
اس معاہدے کے بعد ضلع بھر کی سڑکیں کھول دی گئی تھی اور متاثرین اپنے علاقوں کو لوٹ گئے تھے تاہم معاہدے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے کرم کے مختلف مقامات کے شاملاتی زمینوں پر ایک مرتبہ پھر جھڑپیں شروع ہوئی اور یوں ایک مرتبہ پھر ان واقعات نے فرقہ ورانہ جنگ کی شکل اختیار کرلی۔
فرقہ ورانہ فسادات ختم ہونے کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں؟
ظہور خان ضلع کرم میں سماجی کارکن ہے۔ ان کے مطابق پولیس کی جانب سے کسی بھی واقعے کے بعد مشکوک افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے تاہم ابھی تک کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ملی۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس اور سیکورٹی نافذ کرنے والے ادارے اگر مجرمان تک پہنچتے اور ان کو عدالتوں سے سزا ملتی تو پھر کوئی بھی ایک دوسرے پر الزام نہیں لگاتے تاہم بدقسمتی سے اس طرح مکمن نہیں ہے۔
دوسری جانب کرم پولیس کا موقف ہے کہ ضلع میں ہر واقعے کے بعد کارروائیاں کی گئی ہیں اور جرائم میں ملوث ملزم کو عدالتوں میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
ادھر ضلع کرم انجمن حسینہ کے صدر تجمل حسینی کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں امن برقرار نہ ہونے کی وجہ ظالم اور مظلوم میں فرق نہ کرنا اور بغیر تحقیق کے بے گناہ افراد کو نشانہ بنانا ہے جبکہ پچھلے دنوں کا واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ ایک شخص کے قتل کے بعد بغیر تحقیق کے تری مینگل میں سات افراد کو مار ڈالا۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری قبائلی علاقوں میں تنازعات ہوتے ہیں لیکن وہاں کوئی بھی ظالم کا ساتھ نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ اس بار بھی اہل تشعیہ اور سنی اقوام کے مشران نے متفقہ طور پر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ظالموں اور ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائے اور ضلع کرم میں تنازعات کے حل کے لیے کام کیا جائے تاکہ پوری ضلع میں امن کی فضاء قائم ہوسکے۔ ان کے نزدیک ضلع کرم کی امن مجرموں کو سخت سزا دینا اور تنازعات کو فوری طور پر حل کرنے میں ہے۔
مینگل قوم کے قومی مشر اور مینگل قوم ویلفئرکمیٹی کے صدر ملک منور خان کا کہنا ہے کہ اگر ضلع کرم میں مری معاہدے پر صحیح عملدرآمد کیا جائے تو پھر بھی سارے مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا مینگل قوم اور پیوڑ قوم کے جائیداد کا مسئلہ کئی عرصہ سے چلا آرہا ہے جبکہ مینگل قوم جرگے یا عدالتی فیصلے ماننے کو تیار ہے جو بھی فیصلہ ہو وہ ان کے قوم کے لیے قابل قبول ہوگا لیکن اس سے پہلے ضلع کرم میں تری مینگل سے لیکر چھپری تک اسلحے کے خلاف سرچ آپریشین کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر فیصلوں کو ایک فریق تسلیم نہیں کرتا اور وہ اسلحے کا استعمال کرکے علاقے کے امن کو خراب کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک ضلع کرم میں امن کی بحالی پوری ضلع میں اسلحے کے خلاف بلا امتیاز آپریشن اور تمام اداروں کو ملکر جلد از جلد جائیدادوں اور دوسرے تنازعات کو ختم کرنے میں ہے۔
ضلع کرم کی جغرفیائی اہمیت
چھ لاکھ آبادی پر مشتمل ضلع کرم میں دو صوبائی، دو قومی حلقے، تین سب ڈویژن اور تین تحصلیں ہیں۔ لوئر کرم میں زیادہ تر اہل سنت، سنٹرل کرم میں دو تین گاؤں کے علاوہ باقی سارے اہل سنت کے لوگ ہیں جبکہ اپر کرم میں تری مینگل، مقبل، بوشہرہ اور چند چھوٹے چھوٹے گاؤں کے علاوہ سارے اہل تشیع کے لوگ آباد ہیں۔
ضلع کرم کے تحصیل لوئر کے مشرق میں ضلع ہنگو، وزیرستان اور اورکزئی کے کچھ علاقے ہیں۔ سنٹر کرم کے مشرق میں ضلع اورکزئی شمال میں ضلع خیبر اور افغانستان کا بارڈر ہے۔ اپر کرم کوہ سفید کے دامن میں پاک افغان کی بارڈر پر واقع ہے جبکہ دوسری طرف سنٹرل کرم اور لوئر کرم کے حدود ہے۔
اپر کرم میں پاک افغان بارڈر پر خارلاچی، تری مینگل، شورقوں اور دیگر جگہوں پر افغانستان جانے والے تجارتی رستے ہیں جس میں اب صرف خارلاچی کے مقامی پر باہمی تجارت کے لیے بارڈر کھولا ہے۔