لائف سٹائل

پاکستان میں اقلیتوں کے مذہبی تہواروں کی تعطیلات کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا، وجوہات کیا ہیں؟

ہارون الرشید

حکومت پاکستان ہرسال کے آغاز پر سالانہ تعطیلات کا اعلان کرتی ہے جس میں نیشنل اور مسلم ہولی ڈیز کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے تہواروں کی چھٹیوں شامل ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والی اقلیتی برادری کی 99 فیصد تعداد اپنے مذہبی تہواروں کی تعطیلات سے بے خبر رہتی ہیں جس کی بڑی وجہ تعطیلات پر عملدرآمد نہ ہونا ہے.

پاکستان میں ہندو، مسیحی،کیلاشی، بہائی، سکھ اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری موجود ہیں جن کے اکثریت لوگ ہیلتھ، ایجوکیشن اور صفائی کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں تاہم متعلقہ ادارے حکومت پاکستان کی ہدایات کے باوجود مذہبی تہواروں کی تعطیلات پرعملدرآمد سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے اقلیتی برادری اپنے تہوار سے لطف اندوز نہیں ہوتی جوکہ یقیناً ایک مجرمانہ فعل ہے۔

آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیئرمین ہارون سرب دیال بتاتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے ان چند ایک ممالک میں شامل ہے جہاں مذہبی اقلیتوں کو اپنے تہواروں کو منانے کی مکمل آزادی حاصل ہے، وطن عزیز مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کا گہوار ہے جو ایک اجتماعی معاشرہ کی بنیاد پرقائم ہے، دنیا کے نقشے میں پاکستان میل جول، بھائی چارہ،اخوت، اتحاد اور یگانگت کیلئے جانا جاتا ہے، آئین پاکستان میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق، آزادی، وجاہت اور انصاف کی ضمانت دی گئی ہے نسل، مذہب، علاقہ کے نام پر تعصب اور امتیاز کی نفی کی گئی ہے اور اقلیتوں کے ساتھ، تنگ نظری، امتیاز، تعصب اور تشدد رویہ کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اقلیتی برادری کو دوسرے درجے کا شہری گردانے میں ان اداروں کا بھی ہاتھ ہے جو اپنے ڈیوٹی اوقات کار میں مذہبی اقلیتی برادری کے تہواروں کو یکسرنظر انداز کر دیتے ہیں، تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ اکثر و بیشتر اوقات ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ امتحانی شیڈول میں اقلیتوں کے مذہبی تہواریوں کی تعطیلات کا خیال نہیں رکھتا اسی طرح بعض دفعہ تو تہواروں والے دن انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مینارٹی کمیونٹی ووٹ کا اپنا قومی فریضہ کی انجام دہی سے بھی محروم رہتی ہے۔

ہارون نے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے ایک مسیحی برادری سے وابستہ ایک شخص نے ایک ملاقات میں انہیں (ہارون سرب دیال) بتایا کہ ان کی اہلیہ نرس ہیں جو کہ پشاور میں ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہیں لیکن اسے ان کے ایسٹر تہوارکے دوران ڈیوٹی کیلئے ضلع نوشہرہ بلایا جارہا ہے، اگر ہمارے مذہبی تہوار میں میری بیوی اپنے بال بچوں اورخاندان کیساتھ شامل نہیں ہوں گی تو یہ انتہائی زیادتی و ناانصافی پرمبنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مذاہب کے پیروکاروں کو ان کی عبادت کے صلے میں تہواروں کی شکل میں انعام دیا ہے جبکہ اداروں کی جانب سے یہ عمل معاشرے میں ہم آہنگی کیلئے مذہبی جذبات کو اہمیت نہ دینے اور ذاتی افکار کی بنیاد پر کسی شہری کاحق دبانے کے مترادف ہے۔

چیئرمین ہندو رائٹس موومنٹ نے وزیراعظم پاکستان، نگران حکومت اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان حکومت کی جانب سے اقلیتی برادری کیلئے ضرور آسانیاں پیدا کی گئی ہیں لیکن جب حکومتی اعلیٰ اقدامات کی عوامی پذیرائی نہ ہوتی ہو تو وہ اداروں کی ناقص کارکردگی کی نذر ہو جاتی ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو اقلیتی مذہبی تہواروں کی تعطیلات کا شیڈول آویزاں کرنے کا پابند بنایا جائے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اقلیتی کمیونٹی سال میں 22 تہواروں کو مناتی ہے پشاور کے علاوہ صوبے کے دیگر 34 اضلاع میں شاید ہی کوئی ایسا ضلع ہوگا جہاں اقلیتی مذہبی تہواروں کی تعطیلات باقاعدہ آویزاں کی گئی ہوں۔

ہارون سرب دیال بتاتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر اٹھا کر دیکھ لیں تو اس میں بھی اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے ہرسال 11 اگست کو مینارٹی کا دن منایا جاتا ہے، تحریک پاکستان، دفاع پاکستان، تعمیر پاکستان اور خوشحال پاکستان میں اقلیتی برادری کا اہم کردار ہے اس لئے 11 اگست کے دن کو ہر لحاظ سے بہترین انداز سے منانے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ لوگ ہمارے اسلاف کی قربانیوں اور کارناموں کو جان سکیں.

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے اقلیتوں کے تحفظ اور ان کی مذہبی آزادی کیلئے اقدامات کئے ہیں اس ضمن میں آرڈیننس، نوٹیفکیشن پر سنجیدگی سے عملدرآمد نہیں کیا جا رہا، مایوس کن بات یہ ہے کہ قومی و نجی اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث ہمارا مستقبل تاریک کیا جا رہا ہے اور ہماری آواز پھر عالمی فورم تک چلی جاتی ہے جس کا بڑا نقصان ہمارے ملک کو پہنچتا  ہے جس کا پھر ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اقلیتی برادری کیلئے غیر معمولی اقدامات کی پروجیکشن ہو تو دنیا میں وطن عزیز کا بہتر امیج کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button