"شوہر نے صاف کہہ دیا تھا کہ طوائف سے بیٹی نہیں چاہئے”
شازیہ نثار
‘بچپن سے ناچنے، ناچتے گھنگروؤں کی جھنکار اور سریلی آواز کے پیچھے چھپے درد کو قریب سے محسوس کیا تھا اس لئے عزت کی زندگی گزارنے کے لئے شادی کر لی تھی مگر نہیں جانتی تھی کہ ہم جیسوں کو عزت قسمت سے ہی ملتی ہے۔’
سوات کے بنڑ محلہ میں رہائش پذیر رقاصہ کرشمہ رقص کی تیاری میں مصروف تھی، رات کے اندھیرے میں ہلکی سی روشنی اس کے پیروں پر پڑی تو محسوس ہوا کہ گھنگرو جھنکار کے انتظار میں ہیں اور عنقریب ان کی آواز تماشائیوں کے کانوں تک پہنچ جائے گی۔
خوبصورت قد کاٹھ اور دلفریب حسن کی ملکہ کرشمہ خان گزشتہ کئی سالوں سے رقص کر رہی ہیں اور یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 15 سال کی عمر میں پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لئے ناچنا شروع کیا اور 19 سال کی عمر میں پنجاب کے ایک کاروباری شخص کے ساتھ عزت کی زندگی گزارنے کے لئے شادی کر لی۔
کرشمہ کے مطابق یہ ان کے شوہر کی دوسری شادی تھی تاہم وہ اس بات پر خوش تھی کہ اب وہ اپنی نہیں بلکہ ایک مرد کی ذمہ داری بن چکی ہے، تین ماہ بہت اچھے گزرے اور ماں بننے کی خوشی نے جیسے ان کی عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا خواب بھی پورا کر دیا۔
ان کے بقول قیامت تب ٹوٹی جب حمل کے دوران معلوم ہوا کہ وہ بیٹی کی ماں بننے والی ہیں تو شوہر نے انہیں صاف کہہ دیا کہ اسے ”ڈمے” (طوائف) سے بیٹی نہیں چاہئے۔ "اس کے بعد شوہر نے میرا خرچہ پانی بند کر دیا اور پانچ مہینے تک ایک اذیت میں زندگی گزاری مگر کسی بھی حال میں بچی ضائع کرنے پر راضی نہیں ہوئی، اپنا حق مہر میں لکھا گھر چھوڑ کر شوہر سے جرگہ کے ذریعے طلاق لے لی اور ہسپتال سے سیدھا سوات کی طرف روانہ ہو گئی۔”
کرشمہ کے بقول قصہ یہاں ختم نہیں ہوا، ”بیٹی کی پیدائش کے بعد سابقہ شویر نے بلیک مل کرنا شروع کر دیا اور مطالبہ کیا کہ پیسے دو ورنہ وہ بچی کو اپنے ساتھ لے جائے گا لیکن میں جانتی تھی کہ بچی وہاں بھوک پیاس سے ہی مر جائے گی اس لئے بچی کے بدلے میں نے سابقہ شوہر کو 25 لاکھ روپے ادا کئے۔”
وہ کہتی ہیں، ”ہر عورت کی طرح ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنا گھر، شوہر اور بچے ہوں اور ہم بھی عزت کی زندگی گزاریں جبکہ شادی کے بعد میں بالکل بھی اس فن میں واپس نہیں آنا چاہتی تھی لیکن تقدیر میں کچھ یوں لکھا تھا کہ اب بھی یہاں پر وہی پرانی زندگی گزار رہی ہوں۔”
یاد رہے کہ بنٹر محلہ والئی سوات عبدالودود کے دور میں آباد ہوا اور خیبر پختونخوا کے مخلتف علاقوں میں فن سے وابستہ لوگ یہاں آ کر آباد ہونے لگے۔ سوات میں بدامنی سے پہلے ان کا کاروبار عروج پر تھا مگر کشیدگی بڑھنے اور ڈانسر شبانہ کے قتل کے بعد یہ محلہ خالی ہونے لگا اور آئی ڈی پیز بن کر یہ لوگ بھی پشاور، مردان اور اسلام آباد چلے گئے۔ امن کی بحالی کے بعد کم ہی تعداد میں یہ لوگ سوات واپس آئے۔
محلہ بنڑ اور ملوک آباد میں پہلے ہنرمندوں کے 80 خاندان آباد تھے اور اب صرف 14 گھرانے باقی رہ گئے ہیں۔
بنڑ سے تعلق رکھنے والے طبلہ نواز سراج الدین نے بتایا کہ یہاں سے ہنرمندوں کے ختم ہونے کی وجہ خوف بھی ہے مگر زیادہ تر ڈانسرز نے شادیاں کر کے اس فن سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے یا پھر سوات واپسی کے بعد مردوں نے متبادل روزگار اختیار کر لیا اور اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو اس طرف آنے نہیں دیا جس سے نہ صرف یہ فن ختم ہو رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رباب، ہارمونیم اور طبلہ نوازوں کا روزگار بھی ختم ہو گیا ہے۔
سراج الدین نے بتایا کہ بنڑ نے پشتو فن کو بڑے نامور نام اور خوبصورت آواز دیئے ہیں جن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکارہ نازیہ اقبال، غزالہ جاوید، نیلو، مسکان فیاض اور ڈانسر شہناز شامل ہیں۔