لائف سٹائل

لنڈیکوتل: ”یہاں پر پینے کا پانی نہیں ہے درخت کیا لگیں گے”

محراب آفریدی

دنیا موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی سے اگر پریشان ہے تو پاکستان کے قبائلی علاقے، خاص کر لنڈی کوتل بھی اس کی لپیٹ میں ہے؛ یہاں کے پہاڑ پہلے سے سبزے سے خالی اور زمین خشک و بے آب و گیاہ ہے، پہاڑوں پر جو قدرتی درخت لگے تھے ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے مقامی لوگ ان کو بھی کاٹ رہے ہیں جن کو روکنے والا کوئی نہیں، درخت نہیں اگائیں گے تو آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں رہیں گے، بارشیں کم ہوتی ہیں اس لئے سردی کی بجائے گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے اور جب بارش ہوتی ہیں تو موسلادھار اور تباہ کن ہوتی ہیں۔ اگر ان بارشوں کے پانی کو بارانی ڈیموں کی صورت میں ذخیرہ کیا جائے تو زیرزمین پانی کی سطح اوپر آ سکتی ہے، سیلاب کم ہو سکتے ہیں اور ان سے دیگر متعدد فوائد بھی مل سکتے ہیں۔

درخت اور پودے کاشت کرنا سنت نبوی بھی ہے لیکن یہاں شجرکاری کے موسم میں بھی لوگ پودے کاشت نہیں کرتے ہیں لہذا یہاں کہیں بمشکل سبزہ ملے گا، ہر طرف دھویں اور گردوغبار نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

ان غیرآباد پہاڑوں میں اگر ایک طرف لنڈی کوتل کی عوام درختوں کی کٹائی میں مصروف ہے تو دوسری طرف یوسف شینواری نامی ایک ایسا بھی شخص ہے جنہوں نے اس بنجر زمین کو جنگل میں بدل دیا ہے۔

یوسف شینواری کا میرا تعلق میرداد خیل گاؤں سے ہے۔ بقول ان کے قریبی گاؤں مختیارخیل پہلے سے بہت پسماندہ تھا، تنازعات کی وجہ سے وہاں پر تقسیم بہت مشکل تھی پھر 1991/92 میں زمین کو فروخت کرنے کی اجازت مل گئی اور اس وقت اس طرح فیصلے بھی ہوئے کہ جو شخص زمین فروخت کرے گا تو اس زمین کو دوسرا شخص پھر واپس نہیں کر سکتا، ‘ہمارے خیبر کا چونکہ اس طرح رواج ہے کہ جو شخص زمین فروخت کرے اس کے خاندان والے اس کو واپس کرتے ہیں تو اس وقت یہ شرط ختم کر دی گئی تھی۔’

انہوں نے کہا، ‘میرا خاندان بہت بڑا ہے ہمیں زمین کی سخت ضرورت تھی، جب مختیارخیل نے زمین فروخت کرنا شروع کی تو میں پہلا آدمی تھا جس نے اس وقت ان سے 30 جریب زمین لی، لنڈی کوتل چونکہ پہاڑی علاقہ ہے تو یہ جگہ بھی پہاڑی اور بہت بنجر تھا، ایک بھی درخت نہیں تھا، چونکہ یہاں پر تھوڑا بہت پانی تھا اسی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہاں پر میں ایک جنگل اگاؤں گا۔’

‘میں نے سنا تھا کہ تقسیم ہند سے قبل لنڈی کوتل میں درخت بہت تھے، یہاں ہر جگہ جنگل ہی جنگل تھا، اس وقت انگریزوں نے علاقہ کے لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ آپ اگر درختوں کی کٹائی شروع کریں تو ایک من لکڑی کی ہم دگنی قیمت دیں گے، لنڈی کوتل گورنمنٹ کالج کے سامنے ایک بڑا گراونڈ تھا جہاں اب لنڈی کوتل ہائی سکول ہے وہاں پر ان درختوں کو جمع کرتے تھے اور ان کے بدلے ان لوگوں کو دگنے پیسے ملتے تھے، مجھے باپ دادا نے بتایا تھا کہ یہاں پر بہت زیادہ درخت تھے، انگریزوں کو ڈر تھا کہ اگر دشمن سے اس علاقے میں سامنا ہوا تو یہ جنگل ان کے لئے بڑی رکاوٹ بنے گا، اب بھی ہمارے پہاڑوں میں انگریز دور کے مورچے موجود ہیں، سرکاری کاغذات میں اب بھی اس کا ریکارڈ موجود ہو گا، تو یہ سوچ میرے ذہن میں تھی کہ یہاں پر درختوں کی تباہی ہوئی ہے، ان کی بے دریغ کٹائی ہوئی ہے تو میں نے ایک دن یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی اس تیس جریب زمین پر درخت لگاؤں گا۔” یوسف شنواری نے بتایا۔

یوسف شنواری کے مطابق پودے لگانا ایسی عادت ہے جیسے ایک نشئی کو نشے کی عادت ہوتی ہے، ‘یہ میرا مشغلہ بن گیا اور آخرکار میں نے 1994 میں پودے لگانا شروع کر دیئے، اس وقت چھوٹے چھوٹے پودے لگائے، پانی کا مسئلہ تھا، بہت سے پودے لگائے اور ہم اس وقت سوچ رہے تھے کہ ان میں سے کون سے پودے لگیں گے، چنار، پھلائی (پلوسہ) بہت کثیر تعداد میں لگائے تھے اور اللہ کے فضل سے سارے کے سارے پودے لگ گئے، اب تقریباً 29 سال گزر گئے، ہمارے اس جنگل میں اب بہت سے درخت ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے، اس کے ساتھ ساتھ ہم نے میوے کے درخت بھی لگائے لیکن موسم کی وجہ سے پودے تو لگ گئے لیکن اکثر میوہ نہیں دیتے، ہمیں یہ معلوم تھا کہ پوری دنیا میں ماحول بدل گیا ہے، ہمیں یاد ہے کہ لنڈی کوتل میں ہر سال بہت زیادہ برف باری ہوتی تھی، اب اسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے وہ بھی نہیں ہوتی، یہ کام شروع کیا تو یہ امید تھی کہ ایک نہ ایک دن اس کا فائدہ ضرور ہو گا، اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شعور پیدا ہو جائے گا اور وہ بھی درخت لگانا شروع کر دیں گے، (ہنستے ہوئے) اس وقت لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ شخص پاگل ہے، یہاں پر تو پینے کا پانی نہیں ہے درخت کیا لگیں گے، یہ تو ناکام ہو گا، آج یہاں 50 ہزار پودے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ صرف سیر کے لئے آتے ہیں، ان کے لئے ایک خاص جگہ بنائی ہے تاکہ لوگ وہاں آرام سے بیٹھ کر ماحول سے لطف انداوز ہو سکیں، آج میں بہت خوش ہوں اور بغیر ٹینشن کے زندگی بسر کر رہا ہوں۔”

ان کا یہ پیغام ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اچھا کام کرنا چاہیے، ”شوق سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ تھا علاقے میں پودے نہیں تھے اور اسی وجہ سے ماحول پر بہت برا اثر تھا، موسم کو بدلنا صرف پودے لگانے سے ہوتا ہے، گرمی کا زور کم کرنا، موسم کو بہتر کرنا، سب مسائل کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ ہم پودے لگائیں، اب میں نے کینیڈا سے بیج منگوائے ہیں، خیبر کے علاوہ میں نے مری، پشاور، ریگی للمہ میں بھی پودے لگائے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو مفت بھی دیئے ہیں، مجھے اس وقت سخت غصہ آتا ہے اور انتہائی زیادہ پریشان ہو جاتا ہوں جب کوئی ایک درخت کاٹتا ہے۔”

یوسف شنواری نے یہ عہد کیا ہے کہ جب تک ان کی سانس چل رہی ہے اس وقت تک وہ یہ کام کرتے رہیں گے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا ایک ہی حل ہے کہ ہر شخص کم ازکم ایک نہ ایک پودا ضرور لگائے، ”پھر انشاءاللہ بارشوں کا جو سلسلہ ہے وہ بھی انشاء اللہ جاری ہو گا، پانی کی سطح بھی اوپر آ جائے گی اور ہر جگہ جب درخت ہی درخت ہوں گے تو اس سے ماحول بھی خوشگوار ہو گا۔”

دوسری جانب لنڈی کوتل ڈپٹی رینج آفیسر فلک ناز کے مطابق اس سال بھی پورے خیبر میں نو لاکھ 23 ہزار پودے مفت تقسیم کئے گئے ہیں جن میں، شیشم، سفیدہ اور توت وغیرہ شامل ہیں۔

خیال رہے کہ لنڈیکوتل کے پہاڑ زیادہ تر خشک ہوتے ہیں، خیبر ذخہ خیل کے مزرینہ. شپیلہ اور تاتارا کے پہاڑوں پر قدرتی طور پر گرگرہ کے جنگلات موجود ہیں لیکن کم تعداد میں اور بعض پہاڑوں پر محکمہ جنگلات نے بھی درخت لگائے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button