صحت

”چار ماہ کی تنخواہ نہیں دی اور اب نوکری سے بھی نکال دیا”

زاہد جان دیروی

محکمہ صحت خیبر پختونخوا نے پچھلے سال اگست میں اپردیر سمیت صوبہ بھر کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں 64 میل، فی میل خاکروبوں (سویپرز)، 33 سیکیورٹی اہلکار اور پانچ سپروائزرز سمیت 100 سے زائد ملازمین ایک پراجیکٹ کے تحت بھرتی کئے تھے جس سے ہسپتالوں میں صفائی اور ساتھ ساتھ سیکیورٹی کا منظم و موثر نظام قائم ہوا تھا۔

لیکن صوبے میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے فوری بعد تمام اضلاع میں بھرتی کنٹریکٹ جائنٹورئیل ملازمین کو کام سے روک کر برخاست کر دیا گیا۔ جب برخاستگی کی خبر سترہ ہزار روپیہ ماہانہ پر بھرتی ان جائنٹورئیل ملازمین کو اچانک دی گئی تو ان غریب ملازمین کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی، بعدازاں سماجی اور سیاسی حلقوں نے ان ملازمین کے احتجاج میں شریک ہو کر ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی و سماجی کارکن اسرار یوسفزئی نے کہا کہ ملازمین کو سات ماہ بعد نوکری سے نکالنا اور انہیں تنخواہیں نہ دینا ظلم کی انتہاء ہے۔

انہوں نے سیکرٹری صحت، ڈی جی ہیلتھ اور نگراں صوبائی حکومت سے ان غریب ملازمین کی سروس بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سو افراد نہیں بلکہ سو خاندانوں کے رزق کا معاملہ ہے، ان کے گھروں کا چولہا بند کر کے کیا حکومت انہیں خودکشیوں یا دیگر منفی کاموں پر مجبور کرنا چاہتی ہے؟ ‘ہم غریب ملازمین کی بحالی کیلئے بھرپور احتجاجی تحریک کا آغاز کریں گے۔’

مشتاق احمد نامی ایک متاثرہ ملازم کے مطابق جائنٹورئیل سروسز پراجیکٹ عمر اینڈ بابر لمیٹڈ کے ساتھ اگست 2022 میں ہم سترہ ہزار روپے ماہانہ پر بھرتی ہوئے، گو کہ ہماری تنخواہ تیس ہزار کے قریب بتائی جا رہی ہے لیکن اس شدید مہنگائی میں ہم اس تنخواہ میں بھی مجبوراً خوش تھے کہ ہمارے بچوں کی کفالت کیلئے روزگار کا ذریعہ تو مل گیا۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی تین مہینوں کی تنخواہ ہمیں بروقت ادا کی گئی تاہم بقایا چار ماہ کی تنخواہ نوکری سے نکالنے کے وقت سے اب تک نہیں دی گئی حالانکہ ہمیں نوکری سے کسی پیشگی اطلاع یا نوٹس دیے بغیر نکالا گیا لیکن اس کے باوجود ہمیں بقایاجات ابھی تک نہیں دیئے گئے جس کی وجہ سے ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ہم غریب لوگ ہیں اور کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے۔

ایک اور متاثرہ ملازم اورنگزیب خان نے ٹی این این کو بتایا کہ کنٹریکٹ ملازمت ملنے پر وہ بھی خوش تھے، سات ماہ تک ڈی ایچ کیو ہسپتال میں دل لگا کر صفائی ستھرائی کا کام کیا، روزانہ آٹھ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا، دکھ اس وقت ہوا جب ڈی ایچ کیو ہسپتال انتظامیہ اور عمر کمپنی نے ہمیں فروری میں اچانک کام کرنے سے روک دیا اور بتایا کہ چودہ فروری کے بعد سے آپ لوگ فارغ ہو کیونکہ سیکرٹری صحت کی جانب سے عمر اینڈ بابر پراجیکٹ کے عہدیداروں سے کہا گیا کہ فنڈز کی کمی اور دیگر وجوہات کے باعث ڈی ایچ کیو دیر سمیت صوبے کے دیگر اضلاع کے ضلعی ہیڈ کوارٹرہسپتالوں میں پراجیکٹ کے تحت لئے گئے ملازمین برخاست کئے جا رہے ہیں۔

اورنگزیب اس سے قبل بازار میں ٹیلرنگ کی دکان پر کام کرتا تھا لیکن جب ہسپتال میں جاب ملی تو بخوشی ٹیلرنگ کا کام چھوڑ کر ہسپتال میں صفائی کے کام کو ترجیح دی، ”لیکن اب سات ماہ بعد نوکری سے نکالنے کے بعد ہماری مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، چار ماہ کی تنخواہ بھی ادا نہیں کی، بازار میں دکانداروں سے قرض پر سودا سلف لیا اب رقوم ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور اب ان سے بھی نظریں چرا رہے ہیں، کمپنی کی جانب سے ہمیں ابتدائی طور پر دو سال کیلئے کام پر رکھنے کا کہا گیا جو سات ماہ بعد ہی ختم ہو گیا، ہم غریب لوگ ہیں، صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم پر رحم کر کے ہماری نوکری بحال کی جائے تاکہ ہم اور ہمارے جیسے سینکڑوں خاندانوں کے بچے بھوک و افلاس سے بچ سکیں۔

سپروائزر ندیم کے مطابق کمپنی نے بتایا کہ اس وقت حکومت کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور کچھ عرصے بعد دوبارہ ان لوگوں کو بلایا جائے گا، ”کمپنی والوں نے تسلی دی ہے کہ سات مارچ تک واپس کام پر آ جائیں گے لیکن لگ یوں رہا ہے کہ اگر رکھنا ہی تھا تو نکالا کیوں، ہم نے اپنی فریاد ڈی سی دیر کی وساطت سے اعلی حکام اور عمر اینڈ بابر پراجیکٹ والوں تک پہنچائی ہے۔

اس بارے ایم ایس ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال ڈاکٹر امتیاز احمد نے بتایا کہ محکمہ صحت نے کنٹریکٹر کے توسط سے ڈی ایچ کیو ہسپتالوں میں جائنٹورئیل اور سیکیورٹی سروسز فراہم کیں تو اس سے ہمارے ہسپتال میں صفائی ستھرائی اور سیکیورٹی میں بہت زیادہ بہتری آئی تھی لیکن گذشتہ دنوں یہ سویپرز اور سیکورٹی اہلکار یہاں سے فارغ کئے گئے، ‘ان ملازمین کے نکالے جانے سے ہسپتال کے تمام یونٹس، وارڈز میں صفائی اور سیکیورٹی کا کام متاثر ہوا ہے، لیکن ہم اپنے ہسپتال کے سویپرز اور سٹاف سے صفائی ستھرائی کرواتے ہیں۔’

ایم ایس کے مطابق مذکورہ سویپرز اور سیکیورٹی اہلکار ان کی طرف سے نہیں بلکہ ان کے متعلقہ کنٹریکٹرز کی جانب سے فارغ کئے گئے ہیں جن کا محکمہ صحت کے ساتھ معاہدہ تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button