لائف سٹائل

”مرکزی حکومت بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو نہ بھولے!”

عبدالکریم

گزشتہ سال سیلاب نے بلوچستان کے 34 اضلاع کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔ حکومت بلوچستان کا کہنا ہے کہ ابتدائی امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ مکمل کیا جا چکا ہے اور اب دوبارہ بحالی کے کاموں کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

بہرام لہڑی ایک سماجی کارکن ہیں جو نصیرآباد ڈویژن میں سیلاب کے باعث علاقے میں سامنے آنے والی نفسیاتی مشکلات پر کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ سیلاب متاثرین جنیوا کانفرنس میں ہوئے وعدوں کا سن کر خوش ہیں لیکن انہیں خدشات بھی لاحق ہیں، ”جنیوا کانفرنس کے بعد یہاں کے بلوچستان کے جتنے بھی سیلاب زدگان کے لئے ایک اچھی خبر ہے لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت بلوچستان یا حکومت پاکستان کے اداروں سے اگر انہیں خرچ کیا گیا تو انہیں تشویش ہے کہ وہ ان تک وہ سہولیات یا جو فنڈز ہیں ان تک نہیں پہنچ سکیں گے۔”

دوسری جانب نامور محقق اور تجزیہ کار ڈاکٹر عرفان بیگ کا کہنا ہے کہ جنیوا کانفرنس میں ہمارے ہاتھ ایسا کچھ نہیں آیا کہ جس پر ہم خوشی کا اظہار کریں البتہ امید کی ایک کرن ضرور دکھائی دی ہے، ”پیرامیٹرز، کچھ خطوط طے کئے جائیں گے بلکہ کئے جا چکے ہیں جن کے مطابق اس کے ٹینڈر ہوں گے اور اس پر چیک اینڈ بیلنس جو لون دے رہے ہیں، جو گرانٹ دے رہے ہیں ان کا اپنا ہو گا اور وہ بھی کچھ تو گورنمنٹ کے تھرو پراجیکٹ کی شکل میں اور کچھ این جی اوز کے تحت آئیں گے، اور ایک حصہ ایسا بھی ہے جو نقدی کی شکل میں نہیں آئے گا بلکہ وہ اجناس کی شکل میں، خوراک کی اجناس ہیں، اور پھر ٹینٹ ہیں یا مکان بنانے یا ری ہیبیلیٹیشن کے سلسلے میں جو ہماری دو ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں ہیں، یا انفراسٹرکچر ہے اس کے حوالے سے، لیکن پھر بھی اس کا احتمال ہے کہ کچھ نا کچھ بہتری آئے گی۔”

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء اور بلوچستان اسمبلی کے رکن نصراللہ خان زیری کہتے ہیں کہ بلوچستان حکومت کی اتنی بساط نہیں کہ اپنا حصہ حاصل کر سکے تاہم مرکزی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کو بھول نہ جائیں، ”یہ 11 ارب ڈالر امداد کا جو اعلان ہوا ہے جو مستقبل میں آئے گی تو اس میں وفاق حکومت کو چاہئے کہ ہمارے صوبے کو اپنا پورا حصہ دے، جو ہمارے نقصانات ہوئے ہیں جن کا ان کے پاس ریکارڈ موجود ہے ان نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔”

پی ڈی ایم اے بلوچستان کے ترجمان مقبول جعفر کا کہنا ہے کہ سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو پہنچایا ہے اور بلوچستان کا حق ہے کہ اسے زیادہ حصہ دیا جائے، ”لگ بھگ پانچ سو ارب کی ضرورت ہے بلوچستان کو، تو حالیہ جو جنیوا کانفرنس ہوئی ہے تو امید ہے کہ اس میں، بلوچستان کے چیف سیکرٹری نے نمائندگی بھی کی تھی، اور بلوچستان کا خیال رکھا جائے گا کیونکہ بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں شامل تھا۔”

14 جنوری کو بلوچستان کے چیف سیکرٹری عبدالعزیز عقیلی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی دوبارہ آباد کاری کیلئے دو اعشاریہ تین بلین ڈالر درکار ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنیوا کانفرنس میں اعلان کردہ امداد سے بلوچستان کی آبادکاری کے امور آگے لے کر جائیں گے لیکن دوسری جانب بلوچستان حکومت کے زیادہ تر وزراء مرکز سے شاکی اور کہتے ہیں کہ مرکز انہیں اپنا حق نہیں دے رہا ہے۔

مذکورہ وزراء میں سے ایک اسداللہ بلوچ بھی ہیں جنہوں نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرکز نے دنیا کو بلوچستان کے علاقے دکھائے تاہم بلوچستان کو کچھ دینے کیلئے تیار نہیں ہے، ”مرکز سے ہمیں مایوسی ہے، وزیر اعظم دو دفعہ، تین دفعہ یہاں آئے، ہماری کیبینٹ میں نصیر آباد، قلعہ سیف اللہ میں دس ارب کا اعلان کیا آج تک ہمیں ایک دھیلہ نہیں ملا، اس سرزمین کے وسائل کی اہمیت ہے لیکن بلوچستان کی کوئی نہیں، دنیا کے بہت سے ملکوں نے یہاں پیسے دیئے، انہوں نے چندہ کیا اور انہوں نے جتنا چندہ کیا اس میں سے ہمیں ایک دھیلہ نہیں دیا گیا۔”

بلوچستان کے وزراء اور عوام کے خدشات کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button