سیلاب زدہ خلیل الرحمٰن خوشی کے گیت کیوں گاتے ہیں؟
عزیز سباؤن
بلوچستان کے علاقے لورلائی کے گاؤں سلامو کے رہائشی محمد یار ایک گلہ بان ہیں گزشتہ سال کے مقابلے میں جن کے مویشیوں کی تعداد امسال آدھی ہو کر رہ گئی ہے، کہتے ہیں کہ سیلاب نے ان سے آمدن کے تمام زرائع چھین لئے ہیں، ”اگست میں جب بارشیں شروع ہوئیں تو سیلاب آیا جو ہمارے گھر کو بہا لے گیا اور ہم مویشی پال ہیں تو سیلاب ہمارے کچھ مویشی بھی بہا لے گیا، زمین بھی نہیں رہی اور ہمارا یہی ایک آسرا تھا اور وہ بھی ختم ہو گیا۔”
محمد یار سے ملتی جلتی صورتحال بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 190 کلومیٹر دور واقع سنزاوی کے مویشی پال خلیل الرحمٰن کی بھی ہے جن کی آباد زمینوں اور دس کے قریب مویشی بھی گزشتہ سال 26 اگست کو آنے والا سیلاب بہا کر لے گیا ہے لیکن اس کے باوجود ماضی کی طرح وہ آج بھی بہت خوش ہیں۔
خلیل الرحمٰن کے مطابق وہ یہ گیت اس لئے گاتے ہیں کہ سال 2022 میں زیادہ مون سون بارشیں ہونے کی وجہ سے خشک سالی ختم ہو گئی ہے اور آس پاس کے سارے پہاڑ آباد ہو گئے ہیں، ” ندی نالوں میں طغیانی آئی اور کچھ مویشی بھی ہمارے بہا لے گئی، پھر ہم نے شفتل وغیرہ اگائی تھی وہ بھی ختم، لیکن اب خدا کا شکر ہے کہ علاقہ آباد ہو گیا ہے اور مویشی بھی خوب چرتے ہیں، اب ہر طرف، پہاڑوں پر بھی ہریالی ہے، زبردست گھاس اگ آئی ہے تو انشاءاللہ یہ مویشی اب منافع کما کر دیں گے۔”
پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی گزشتہ سال 15 جون اور پھر اگست کے آخر تک دیگر سالوں کے مقابلے میں مون سون بارشی زیادہ ہوئیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے تیس سے زائد اضلاع متاثر ہوئے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کی ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب کے بباعث مجموعی طور پر 15 لاکھ سے زائد افراد تاثرہوئے جن میں سے 334 افراد جاں بحق اور زخمی بھی ہوئے۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان مقبول جعفر کے مطابق مذکورہ عرصہ کے دوران چار لاکھ ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ پانچ لاکھ کے قریب چھوٹے اور بڑے مویشی بھی ہلاک ہوئے، ”لائیوسٹاک کی بات کی جائے تو چار لاکھ 34 ہزار 424 اور اگر ایگریکلچر کی بات کی جائے تو چار لاکھ 75 ہزار 721 اعشاریہ تین ایکڑ، یہ جو ہے نا تباہی ہوئی ہے۔”
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت متاثرین سیلاب کے ساتھ ان کی ضرورت کے تحت مدد کرے گی، ”ایک ساتھ ہمارے لئے اہمیت رکھتے ہیں خواہ عام بندہ ہو جو بھی ہو، اب ہم نے ان کو ضرور ان کے گھر بنا کر دینے ہیں، ان کے مال مویشی جو بہہ گئے ہیں ان کو مال مویشی دے دیں گے، ان کی جو ایگریکلچر لینڈ ڈیمیج ہوئی ہے ان کو زمین کی بحالی کا کام کر کے دیں گے، جو چیزیں ہوئی ہیں انشاءاللہ سب کو ایک ساتھ جن کا جو بھی نقصان ہوا ہم اس طرح سے ان کو سپورٹ کریں گے۔”
ماہر ماحولیات، استاد نعیم تاثیر کے مطابق نقصانات اپنی جگہ لیکن ملک میں جاری خشک سالی نے لوگوں کو زیادہ متاثر کیا تھا جو حالیہ بارشوں کے ساتھ ختم ہو گئی ہے۔
تاثیر کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ سال بارشوں کی وجہ سے مستقبل میں مویشی پالوں سمیت دیگر لوگوں کو بھی بہت زیادہ فائدہ ہو گا، ”ان بارشوں سے قبل گائے بھینس یا چھوٹے پیمانے پر دیگر مویشی پالنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا تھا اور گلہ بان بھی تکالیف سے دوچار تھے لیکن اب ان بارشوں کے ساتھ چراہگاہیں آباد ہو گئی ہیں، وہاں گھاس اگ آئی ہے تو وہ نقصانات جو سیلاب ے پہنچائے تھے، جتنے ریوڑ یہ مویشیوں کے بہا لے گیا تھا تو وہ اک تاوان تو ضرور ہے لیکن ان نقصانات کے ساتھ ساتھ پورے علاقے پر ان کے مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔”
زراعت اور خوراک پر کام کرنے والے عالمی ادارے ”ایمز” کی سال 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی 85 فیصد آبادی کا انحصار زراعت اور گلہ بانی پر ہے جبکہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری خشک سالی نے بلوچستان کے 80 فیصد باغات کو متاثر کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بارشوں کی شرح گزشتہ دو دہائیوں کے دوران آدھی سے زیادہ کم ہو گئی تھی جس کی وجہ سے صوبے کے آٹھ اضلاع بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
ماہرین کے مطابق گزشتہ سال ہونے والی بارشوں نے یہ سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے اور آج بلوچستان میں ایسا کوئی ضلع نہیں جہاں خشک سالی کا خطرہ ہو۔