سوات: 1960 سے قائم ٹراؤٹ مچھلی کی صنعت بھی تباہ ہو گئی
رفیع اللہ خان
سوات میں گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے دیگر نقصانات کے ساتھ ساتھ ٹراؤٹ مچھلی کے فارمز کو بھی بے حد متاثر کیا ہے اور سوداگروں کے مطابق سیلاب سینکڑوں ٹن مچھلی اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے۔
مدین کے رہائشی فضل ربی کے بھی گزشتہ کئی سالوں سے مچھلی کے دو فارمز تھے جن سے ہر سال وہ 23 لاکھ روپے آمدن حاصل کرتے تھے تاہم حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب نے ان کے دونوں فارمز کو مکمل طور پر اجاڑ کر رکھ دیا اور انہیں لاکھوں روپے نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ کام کرنے والے چھ مزدوروں کو بھی بے روزگار کر دیا ہے، ”ہمارے جو فش فارمز تھے یہ نالے سے سائیڈ پر تھے اور جتنی سیفٹی تھی اس کے لئے ہم نے اپنی کوشش کی تھی لیکن 2010 میں جو سیلاب آیا تھا اس کے مقابلے میں یہ سیلاب تین گنا زیادہ تھا تو اس لئے ہماری جو فش انڈسٹری تھی وہ مکمل طور پر تباہ ہو گئی، 30 لاکھ روپے تک اس کی آمدن تھی، کبھی کبھی اس سے زیادہ بھی ہو جاتی تھی، جب بچے (مچھلی کے) کم مر جاتے تھے تو ہماری آمدن زیادہ ہوتی تھی اور جب زیادہ مر جاتے تھے تو ہماری آمدن گھٹ جاتی تھی۔”
فضل ربی کے مطابق سیلاب کو گزرے کئی ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی امداد نہیں کی گئی ہے، ”بہت ہی اچھا کاروبار تھا میرا ملائیشیا میں، تقریباً 13، 15 سال میں ادھر رہا، وہاں سے اپنا پیسہ ادھر لے کر آیا اور انویسٹ کر دیا لیکن اس کے مقابلے میں ادھر میرا سارا کاروبار تباہ و برباد ہو کر رہ گیا، میں اب بہت زیادہ تکلیف اور مصیبتوں میں گھرا ہوا ہوں، اب میں باہر کا رہا اور نہ ہی ادھر کا حالانکہ ہمارے وزیراعلیٰ بھی ہمارے سوات کے ہیں اور ہمارے وزیر فشریز محب اللہ خان کا تعلق بھی ہمارے سوات سے ہے لیکن ہمارے ساتھ کسی نے بھی کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا ہے۔”
محکمہ فشریز کے مطابق سوات میں ٹراؤٹ مچھلی کے ڈھائی سو نجی اور دو سرکاری فارمز ہیں جن میں سے 80 فیصد فارمز کو مکمل طور پر جبکہ 20 فیصد کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
محکمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ابرار احمد کے مطابق سوات میں ہر سال 15 سو ٹن ٹراؤٹ مچھلی پیدا ہوتی تھی لیکن سیلاب ایک ہزار ٹن مچھلی بہا لے گیا ہے جس کی وجہ سے ٹراؤٹ فارمز کو ساڑھے 13 ملین سے زائد، حکومت کو 354 ملین جبکہ اراضی مالکان کو ایک ہزار ملین روپے کا نقصان پہنچا ہے، ”ظاہر سی بات ہے کہ مچھلی تو بغیر پانی کے پیدا ہوتی ہی نہیں ہے اس لئے ندیوں/نالوں کے کنارے ہم نے ان کو بنایا تھا، سیفٹی، فلڈ اسیسمنٹ بھی ان کی ہم نے کی تھی لیکن سیلاب چونکہ اتنا زیادہ آیا کہ ہم اس کی توقع نہیں کر رہے تھے، 2010 کا سیلاب جہاں سے گزرا تھا ہم اس سے بھی آگے/دور چلے گئے تھے تاکہ یہ دوبارہ سیلاب کی زد میں نہ آئیں لیکن چونکہ سیلاب اس سے بھی زیادہ آیا تو ان کو بھی نقصان پہنچا دیا، ٹوٹل جتنے فارمز تھے پرائیویٹ سیکٹر میں، وہ 250 تھے، دو ہمارے پاس گورنمنٹ فشریز تھیں، ایک ہم نے نئی بھی بنائی تھی وہ بھی ڈیمیج ہوئی، اک مدین میں ہمارا جو ٹراؤٹ کلچر ٹریننگ سنٹر جو تھا، پاکستان کا سب سے بڑا ٹریننگ سنٹر تھا، ٹراؤٹ ہیچری بھی تھی، وہ بھی مکمل طور پر تباہ ہوا، اس کے لئے ہم نے جو تخمینہ لگایا ہے، جو نقصانات ہوئے ہیں، وہ ہم نے گورنمنٹ کو ارسال کیا ہے اور گورنمنٹ لگی ہوئی ہے کوشش کر رہی ہے کہ اے ڈی پی سے ہو یا پی ایس ڈی پی یا تھرو این جی او، یو ایس ایڈ کے پاس بھی ہم نے ایک پروپوزل جمع کرائی ہے تو کوشش جاری ہے اور امید ہے کہ چھ آٹھ ماہ میں کوئی رزلٹ سامنے آئے گا اور بحالی کا یہ عمل شروع ہو جائے گا۔”
دوسری جانب اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوات کے مچھلی فارمز صوبے میں مچھلی کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہے تھے اور صوبے کی معیشت میں ان کا بھی ایک حصہ تھا لیکن اب سیلاب کے باعث ہونے والے نقصان کی وجہ سے صوبے کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔
سوات سے تعلق رکھنے والے ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر محسن علی کا کہنا ہے کہ سوات کے وسائل کا صوبے کی ترقی میں بڑا کردار ہے اور اس کی بڑی وجہ سیاحوں کی سوات آمد ہے جس کے ساتھ ٹراؤٹ کے کاروبار کو ترقی ملی تھی لیکن اب سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے ادھر مچھلی کی پیداوار میں کمی آئی ہے اس لئے لوگوں کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہے، ”ہمارے سوات میں ایک اہم ریسورس آبی وسائل ہیں جو نہ صرف ٹورازم کی پروموشن میں ایک بڑا کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ایک اندازے کے مطابق 38 فیصد لوگ سوات میں زراعت اور مچھلی کے کاروبار سے وابستہ ہیں، یہ اس علاقے کے لوگوں کی آمدن میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے اس لئے کہ اسے نا صرف آنے والے سیاح بہت زیادہ پسند کرتے ہیں بلکہ یہ ہمارے علاقے سے دیگر علاقوں کو بھی بہت زیادہ سپلائی کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ صوبے اور خوراک کی ضرورت پوری کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔”
ڈاکٹر محسن یہ تجویز دیتے ہیں کہ اگر حکومت مچھلی فارمز کے مالکان کو قرضے فراہم کرے تو امید ہے کہ یہ مالکان اپنے تباہ حال فارمز کو پھر سے آباد کریں گے اور اس کے ساتھ مچھلی کے کاروبار میں پھر تیزی آئے گی۔
یاد رہے کہ والی سوات نے 1960 میں ٹراؤٹ مچھلی کو متعارف کروایا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ٹراؤٹ مچھلی کے سینکڑوں فارمز بن گئے تھے تاہم حالیہ سیلاب کی وجہ سے یہاں متعدد فارمز تباہ ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے نا صرف لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں بلکہ مچھلی کی پیداوار بھی بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔