صحت

کورونا وباء: ”میرے صحافتی کرئیر کا سب سے کٹھن وقت”

عارف خان

پوری دنیا کو کورونا نے جب اپنی لپیٹ میں لیا تو خیبر پختونخوا میں بھی ایک ہیجانی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی خاص طور پر صحافیوں کے لئے ایسی وبا کی رپورٹنگ ایک کافی مشکل مرحلہ تھا جس سے وہ نبردآزما تھے۔ جہاں ڈاکٹرز بھی اس وبا سے مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے اور ایک علاقہ میں کیس رپورٹ ہونے کی صورت میں پورے مہینے کے لئے اس مذکورہ علاقہ کو سیل کر دیا جاتا تھا ایسی صورتحال کو رپورٹ کرنا صحافیوں کے لئے آسان نہیں تھا۔

خیبر پختونخوا میں کتنے صحافی اس وباء سے متاثر ہوئے اس کا ریکارڈ نہ ہی حکومت کے پاس ہے اور نہ ہی صحافیوں کی کسی تنظیم کے پاس، جبکہ متعلقہ وبا کو رپورٹ کرنے سے متعلق بھی ابتدائی طور پر صحافیوں کے لئے کسی قسم کی آگاہی اور تربیتی ورکشاپ کا انعقاد نہیں کیا گیا تھا۔

کورونا وبا کے ابتدائی دنوں میں پشاور کے بیشتر صحافی بھی اس وائرس کا شکار ہوئے اور جاں بحق بھی ہوئے جن کے لئے خیبر پختونخوا حکومت نے اعلانات تو ضرور کئے مگر ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔

پشاور 92 نیوز کے فخر الدین سید کورونا وبا کا شکار ہوئے اور کچھ ہی دنوں بعد 28 مئی 2020 کو خالق حقیقی سے جا ملے، حکومت کی جانب سے فخر الدین سید کے لئے دس لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان تو کیا گیا لیکن آج تک رقم کی ادائیگی نہیں کی گئی۔

فخر الدین سید کی فوتگی کے بعد صحافیوں میں بھی کافی خوف و ہراس پایا جاتا تھا، اس دوران ہیلتھ بیٹ کور کرنے والے صحافیوں کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس حوالے سے ہیلتھ بیٹ کور کرنے والے 92 نیوز کے رپورٹر تیمور خان کا کہنا تھا کہ وہ بہت مشکل وقت تھا، اس میں یہ خیال رکھنا ضروری تھا کہ کہیں ایسی بات نہ لکھی جائے جس سے پڑھنے والے مزید پریشان ہوں، ہسپتالوں میں جا کر خود دیکھنا بہت مشکل تھا کیونکہ ساتھ میں ڈر بھی ہوتا تھا کہ کہیں کورونا نہ ہو جائے پھر کورونا سے متاثرہ مریضوں کیلئے مختص وارڈز اور ان کو دی جانے والی سہولیات کو خود دیکھنا ایک کٹھن کام ضرور تھا، کورونا سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کے پاس جانا اور ان کو انٹرویو کرنا، کورونا وارڈز میں ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹروں و دیگر ہیلتھ عملہ کے انٹرویوز کرنا تاکہ لوگوں کو سٹریس سے نکالا جا سکے، اسپتالوں کے دورے کر کے اس کے بعد فیملی سے بھی فاصلے پر رہنا پڑتا تھا کیونکہ ہم روزانہ دفتر بھی آتے تھے اور فیلڈ کا وزٹ بھی کرتے تھے کیونکہ ہیلتھ عملہ نے شروع میں مریضوں کو بے یارومددگار چھوڑا تھا، کسی بھی کورونا مریض کی موت واقع ہوتی تھی تو جسد خاکی گھنٹوں تک ہسپتال میں پڑا رہتا تھا اور لواحقین اور ڈاکٹروں کے جھگڑے معمول بن گئے تھے۔

تیمور خان کے مطابق ڈیوٹی کرنے والے کی مشکلات، مریضوں کی مشکلات اور حکومت کی جانب سے کہاں پر کوتاہیاں ہوتی تھیں اس کی مسلسل نشاندہی کرنا ایسے وقت میں بہت ضروری تھا، ”یہ میرے اس صحافتی کرئیر کا سب سے کٹھن وقت تھا۔”

خیبر یونین آف جرنلسٹس کے سابقہ جنرل سیکرٹری محمد نعیم جو کہ کورونا کے وقت پر کے ایج یو جے کے جنرل سیکرٹری تھے، ان کے مطابق ابتدائی دنوں میں تقریباً 23 صحافی کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے، اس کے بعد تعداد بڑھتی گئی تاہم اس سلسلہ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے کچھ صحافیوں کو جو کہ کورونا کا شکار ہوئے تھے 20 ہزار روپے امداد بھی دی گئی تھی، ابتدائی دنوں میں کورونا کے شکار صحافی شہزادہ فہد سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کورونا سے متاثر ہونے کے باعث وہ کافی پریشانی کا شکار تھے ایسی صورتحال میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے، انھوں نے اپنا ایک واقعہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ کورونا کا شکار ہوئے تو ان کے محلے میں یہ خبر پھیل گئی اور ان کے پڑوسی ان کے گھر والوں کے پاس آئے اور عجیب قسم کی باتیں کرنے لگے یہاں تک کہ ایک دن بچے کو سودا سلف لینے کے لئے دکان بھیجا تو دکاندار نے سودا دینے سے انکار کر دیا تھا، ایسی صورتحال میں مزید پریشانی میں اضافہ ہوا، ان کا کہنا تھا کہ نہ ہی حکومت کی سطح پر اور نہ ہی میڈیا ادارے کی جانب سے انھیں کسی قسم کی مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔

فریڈم نیٹ ورک کے مطابق ملک بھر سے کورونا سے متاثر 80 صحافیوں کی مدد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اور فریڈم نیٹ ورک کی جانب سے مشترکہ طور پر کی گئی تھی، فریڈم نیٹ ورک کے ساتھ سال 2020 میں کورونا سے متاثر ہونے والے ملک بھر کے صحافیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اور ان میں سے 80 صحافیوں کی مالی مدد کی گئی تھی، جبکہ اس سلسلہ میں ذوالفقار علی متھو کی سربراہی میں کورونا ریسکیو کمیٹی قائم کی گئی تھی۔

اس حوالے سے خیبر یونین آف جرنلسٹ کے صدر ناصر حسین کا کہنا تھا کہ کورونا وبا میں میڈیا ورکرز کو زیادہ پریشانی میڈیا اداروں کے مالکان سے تھی، 2018 میں جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو چند ایک اداروں کو چھوڑ کر سب نے تنخواہوں پر کٹ لگا دی تھی، اسی طرح جب کورونا کی وبا آئی تو اس کی آڑ میں بھی مالکان نے ورکرز کو فارغ کیا، اس کیلئے پی ایف یو جے کے تعاون سے کے ایچ یو جے نے اور دیگر تنظیموں نے ملک بھر میں کورونا سے متاثر اور جاں بحق ہونے والے صحافیوں کے لئے معاوضہ کی بات کی تھی، کسی کو ملے، جو زیادہ متاثر ہوئے ان کو بھی دیئے گئے اور اس سلسلے میں فریڈم نیٹ ورک نے بھی بہت تعاون کیا تھا، ہماری طرف سے بھی ورکرز کے ساتھ مالی معاونت کی گئی، جبکہ یونین اور کلب کی جانب سے کورونا سے بچاؤ کے لئے سینٹائزر وغیرہ دیئے گئے۔

ناصر حسین کے مطابق ابھی جو نئی لہر آ رہی ہے اس کے لئے بھی کوئی خاص قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے، یونین کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہوتے کہ ورکرز کے لئے کچھ کر سکے، صحافتی تنظیمیں اپنے طور پر کام کر رہی ہیں، ورکرز کو بھی چاہئے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد یقنی بنائیں، کورونا سے شہید ہونے والا صحافی فخر الدین کے لئے بھی معاوضہ کی بات کی گئی تھی مگر ابھی تک ادائیگی نہیں کی گئی ہے حکومت کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا انڈومنٹ فنڈ میں شامل نہیں ہے، انڈومنٹ فنڈ میں میڈیکل کی مد میں اور دہشت گردی سے شہید ہونے والے صحافیوں کو دس لاکھ روپے دینے کی بات کی گئی ہے تاہم کورونا اس میں شامل نہیں ہے اس لئے شہید ہونے والے صحافی فخر الدین کو ادائیگی نہیں ہو سکی ہے، حکومت سے یہی مطالبہ ہو گا کہ وبا سے شہید ہونے والے صحافیوں کو بھی انڈومنٹ فنڈ میں شامل کیا جائے۔

پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی خیبر پختونخوا کے میڈیا اینڈ کمیونیکشن آفیسر ذیشان انور کا کہنا تھا کہ وبا میں صحافیوں کے لئے تربیت انتہائی ضروری ہے، بغیر تربیت کے وبا میں رپورٹنگ نہیں کی جا سکی، غلط رپورٹنگ کرنے سے پینک پیدا ہوتی ہے، اور کورونا وبا کے دوران ایسا ہوا بھی ہے، یہ تربیت کرائے گا کون، یہ ہمارے ادارے، صحافتی نمائندہ تنظیموں اور حکومت تینوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ایسی تربیت کا انعقاد کیا جائے، اس کے لئے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، رپورٹنگ کس طرح کی جائے گی وبا کے دوران!

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہلال احمر خیراتی ادارہ ہے اتنے فنڈز نہیں ہوتے کے تربیتی روکشاپ کا اہتمام کیا جا سکے، مختلف ڈونرز کو ریکوسٹ کر کے اس قسم کی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، اگر تربیتی ورکشاپ کا اہتمام بھی کیا جائے تو صحافی اس میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔

ذیشان انور کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ایک ورکشاپ کا اہتمام ان کے ادارے کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں کچھ صحافیوں کو مدعو کیا گیا لیکن ان میں سے صرف دو صحافی ہی ورکشاپ میں شریک ہوئے جبکہ ان کو تربیت دینے کے لئے پشاور سے باہر کسی پرفضا مقام پر اہتمام کیا جائے تو پھر جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں، پریس کلب کی طرف سے بھی اس سلسلہ میں دلچسپی نہیں لی جاتی ہے۔

نوٹ: یہ سٹوری پی پی ایف فیلوشپ پروگرام کا حصہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button