لائف سٹائل

پھول اگائیں اور کم محنت کم وقت میں لاکھوں کمائیں!

ریحان محمد

سجاوٹی پھول ہوں یا خوشبو دار قدرتی پھول، پھول محبت اور خوشی کی علامت ہی ہوتا ہے۔ پھولوں کی خوشبو ماحول کو معطر کر کے انسانی ذہن پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ پھولوں کی بدولت پیدا ہونے والے پاکیزہ جذبات روحانی آسودگی کا سبب بنتے ہیں اور ان کی رنگت و بھینی مہک اعصاب کو پرسکون بنا دیتی ہے۔ جبکہ پھولوں کی کاشتکاری یا فلوری کلچر سے خاصہ منافع بھی ملتا ہے۔ فلوریکلچر میں سجاوٹی پودوں اور پھولوں کی کاشت کے علاوہ ان کی نگرانی اور مارکیٹ تک رسائی شامل ہے، اس کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملتے ہیں۔

پاکستان میں فلوریکلچر سندھ اور پنجاب میں زیادہ ہے لیکن اب خیبر پختونخوا کے ضلع سوات، مردان، چارسدہ، پشاور سمیت قبائلی اضلاع میں بھی فلوریکلچر کو فروغ مل رہا ہے۔ جدید طریقوں اور کم وسائل میں زیادہ منافع دینے والے دیگر پھولوں کی طرح گلیڈی اولس یا گلدستے کا پھول بھی شامل ہے جو پنجاب اور سندھ کے بعد امسال خیبر پختونخوا کے ضلع سوات اور قبائلی اضلاع میں کاشت کیا گیا ہے۔ گلیڈی اولس پھول تقریباً ستر دن میں مکمل اگتا ہے اور سجاوٹی گلدستوں میں لگانے کے قابل ہوتا ہے۔ گلیڈی اولس کے ایک تنے میں دس پھول اگتے ہیں جس میں سب سے زیادہ خوبصورت، اور لوگوں کا پسندیدہ، سفید رنگ کا پھول ہوتا ہے۔

محکمہ زراعت خیبر پختونخوا نے قبائلی اضلاع کے کاشت کاروں کو گلیڈی اولس کے پھولوں کی کاشت کیلئے مفت بڈز (بیج) دیا تھا جس سے اب مقامی زمیندار کم عرصہ اور کم لگن کے بعد لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔

ضلع خیبر باڑہ کے رہائشی زمیندار محمد وصیل کو بھی محکمہ زراعت کی جانب سے گلیڈی اولس کے ایک ہزار مفت بڈز ملے تھے جس نے ایک جریب زمین پر کاشت کئے۔ وصیل نے اسے دو مہینے پہلے کاشت کیا تھا اور اب پھول کی ڈنڈیوں کو کاٹ رہے ہیں اور مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کیا ہے۔

محمد وصیل نے بتایا کہ ہم پہلے پرانے طریقوں سے اناج یا سبزیاں اگاتے لیکن اس کیلئے محنت زیادہ درکار تھی اور منافع کم مل رہا تھا لیکن اس بار گلیڈی اولس پھول لگائے گئے ہیں جس سے دو مہینے بعد منافع آنا شروع ہوا جو تین مہینوں تک صرف ان ہی پھولوں کے پودوں سے ملے گا۔

محکمہ زراعت خیبر پختونخوا ضلع خیبر کے ایگریکلچر آفسیر محمد اسماعیل کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور خاص طور پر قبائلی اضلاع میں گلیڈی اولیس پھول کی پیدوار نہیں کی جاتی تھی لیکن پہلی بار ہم نے قبائلی اضلاع میں یہ شروع کیا جس کے بہت اچھے نتائج آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کا ایک بڈ (بیج) مارکیٹ میں دس روپے تک ملتا ہے اور اگنے کے بعد یہ دو بڈز بھی پیدا کرتا ہے جسے زمیندار مارکیٹ میں اپنی قیمت پر فروخت کر سکتا ہے اور ساتھ ہی ایک پھول کی ڈنڈی 30 روپے سے لے کر پچاس روپے تک مارکیت میں فروخت ہوتی ہے، اس پھول کو اگانے کیلئے کوئی خاص خرچ یا تکلیف کرنا نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی وقت عام سی زمین، کم نمی والی آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک یا دو بار عام کھاد دینا ضروری ہے جبکہ اس پھول کی مانگ نومبر سے مارچ تک ہوتی ہے، اس پھول کو زیادہ تر لوگ گلدستے میں ہی استعمال کرتے ہیں اور خوشیوں کے موقع پر ایک دوسرے کو تخفے کے طور پر دیتے ہیں۔

گلیڈی اولیس کو رنگ کے اعتبار سے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن اس میں سب سے مہنگا اور مشہور وائٹ فرینڈشپ، وائٹ پراسپیرٹی، وائٹ ایمسٹرڈیم، روزسپریم (پنک)، ایڈونس ریڈ (سرخ) شامل ہیں۔

لوگوں کے طرز زندگی میں تبدیلی نے پھولوں کی مانگ میں بھی اضافہ کیا ہے۔ پھولوں کی مانگ میں یہ اضافہ معاشرے میں مختلف تقاریب جیسے شادیوں اور سالگرہ  کی تقاریب میں پھولوں کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے ہے۔ پھولوں کو آرائشی عنصر کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی پھولوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، کراچی لاہور، پشاور، فیصل آباد، ملتان میں پھولوں کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سے ممالک میں مختلف پھولوں کی مصنوعات زرعی شعبے سے برآمد ہونے والی اشیاء ہیں۔

خیبر پختونخوا میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ پھولوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ امجد خان پشاور بورڈ بازار میں پچھلے دس سالوں سے تازہ پھولوں کا کاروبار کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے وہ عام پھول بیچ رہے تھے جس سے ہار بنائے جاتے تھے لیکن اب گلدستوں کے پھول بھی بیچ رہے ہیں کیونکہ اس میں ان کو منافع زیادہ ملتا ہے۔

امجد نے کہا کہ وہ پہلے گلیڈی اولس پھول کو پنجاب اور ضلع سوات سے لاتے تھے لیکن اب مقامی لوگ بھی اس کو اگاتے ہیں اور یہاں پر ان کو کم داموں پر ملتا ہے جس میں منافع زیادہ ہوتا ہے اور پھول تازہ ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پھول کی یہ خوبی ہے کہ تقریباً دس دنوں تک تازہ رہتا ہے، پہلے ایک ہی ڈندی میں ایک پھول نکلتا ہے جونہی وہ مر جاتا ہے تو دوسرا پھول نکلتا ہے اور اسی طرح ایک ہی ڈنڈی سے دس پھول نکلتے ہیں، اس کے بعد اس کا تنا خشک ہونا شروع ہو جاتا ہے، زیادہ تر لوگ اس کو دفاتر اور گھروں میں ایک برتن میں پانی میں رکھتے ہیں جو کئی دنوں تک تازہ رہتا ہے۔

انسانی زندگی گزارنے کے طور طریقے میں مختلف تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خوشیاں منانے اور تقاریب منعقد کرانے میں بھی تبدیلی نظر آئی ہے؛ لوگ کم خوشیوں کو منانے کیلئے بھی پارٹیاں کراتے ہیں جس میں اکثر پھول ہی تحفے یا سجاوٹ کیلئے استعمال کرتے ہیں اس وجہ سے مختلف اقسام کی پھولوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔

محمد وصیل کا کہنا تھا کہ پہلے تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس پھول کی کتنی اہمیت ہے لیکن ابھی معلوم ہوا کہ اس کی ایک بڑی مارکیٹ ہے جو نہ صرف پشاور بلکہ صوبے کے دیگر اضلاع سمیت پنجاب کو بھی یہ پھول جاتے ہیں، اب اس کی مارکیٹ اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان کو مزید کاشت کرنا ہے کیونکہ اس پھول کو کاشت کرنے کے بہت سے فائدے ہیں۔

گلیڈی اولس پھول کا بڈ لہسن کی طرح ہوتا ہے جو زمین میں لہسن کی طرح بویا جاتا ہے اور ایک بڈ سے ایک ڈنڈی نکلتی ہے اور دو الگ بڈز نکلتے ہیں، ایک ڈنڈی میں دس پھول نکلتے ہیں جو ایک ہی ڈنڈی کے ساتھ فروخت کئے جاتے ہیں جبکہ زمیندار بڈز کو بھی فروخت کر سکتا ہے۔

محمد وصیل کا کہنا تھا کہ ایک کنال زمین پر چھ ہزار گلیڈی اولس کے پھول لگائے جا سکتے ہیں جس میں بہت کم بڈز نہیں نکلتے جبکہ ایک کنال سے 70 سے 90 دن میں ایک زمیندار دس لاکھ روپے کما سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button