چارسدہ: سیلاب کے بعد پینے کے پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا
کائنات علی
”ہمارے ہاں پانی بہت زیادہ گندا ہے، اور چائے کیلئے پتی ڈالتے ہیں تو وہ بھی بالکل خراب ہو جاتی ہے”، یہ کہنا ہے چارسدہ کے اشرف کلے نامی گاؤں کی رہائشی 50 سالہ ماجدہ بی بی کا جو سیلاب کے بعد سے مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ماجدہ بی بی کا کہنا تھا کہ سیلاب گزر جانے کے بعد جب وہ واپس گھر آئیں تو ان کے گھر کا پانی بہت زیادہ خراب ہو گیا تھا جو پینے کے لائق بالکل بھی نہیں تھا اور اگر اس میں چائے بنانے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ بھی خراب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے انہیں سخت مشکلات درپیش ہیں، ”بچوں کو خارش کی شکایت بھی زیادہ رہتی ہے، پیٹ بھی اکثر خراب ہوتے ہیں، چائے (اس پانی میں) میں زیادہ خراب ہوتی ہے، دودھ کی چائے ہوتی ہے، ہم غریب لوگ کیا کیا کریں گے، 500 روپے دیہاڑی ہوتی ہے اس میں یہ بیچارے کیا کچھ کریں گے بس تکلیف ہیں گزار رہے ہیں۔”
ماجدہ بی بی نے مزید بتایا کہ پہلے پانی کے ٹینکر آتے تھے تاہم وہ اب آنا بند ہو گئے ہیں، مرد سارا دن مزدوری کرتے ہیں اور جب شام گھر واپسی ہوتی ہے تو دوردراز علاقوں سے پانی لاتے ہیں اس لئے پانی کے اس مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہئے، ”ٹینکرز میں بھی پانی آتا تھا، بوتلوں میں بھی پانی لے کر آتے تھے، بالکل بھی لاتے تھے پانی ایک آدھ مہینہ، لیکن اب تکلیف بہت زیادہ ہے، یہی کوئی مہینہ دو ہو گئے ہیں کہ اب پانی نہیں لاتے ہیں۔”
دونوں پاؤں سے معذور ہجرت اللہ نے بتایا کہ علاقے میں پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث متاثرین سیلاب شدید مسائل سے دوچار ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کا پانی پینے کے قابل نہیں لیکن وہ مجبوراً پیتے ہیں، حکومت بھی متاثرین سیلاب کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے، سرکاری لوگ آ جاتے ہیں اور تصویریں کھینچ کر چلے جاتے ہیں، ”یہاں ہر ایک چیز ریت سے اٹی ہوئی ہے، نہ ہی اب تک ان کی اچھی طرح سے صفائی ہوئی ہے اور ریت اتنی کہ لوگ مجبوراً استعمال تو کرتے ہیں لیکن جب وہ کولر یا کوئی اور (برتن) اس سے بھرتے ہیں تو نیچے بہت ساری ریت پڑی ہوتی ہے، بھل کا ذائقہ بھی ہوتا ہے اس میں، پانی نکلتا بھی نہیں اور جب ہم نے پائپ کھود کر نکالی تو وہ بھل سے بھری ہوئی تھی اور اسی وجہ سے اس کا ذائقہ بھی خراب تھا۔”
دوسری جانب سکینہ بی بی نامی ایک خاتون نے بھی بتایا کہ گندا پانی پینے کی وجہ سے ان کے بچوں اور گھر کی خواتین کو خارش کی بیماری لاحق ہو گئی ہے، ”نہائیں گے تو ضرور اس سے اور کیا کریں گے، بہو کو بھی خارش ہے اور بیٹی کو بھی خارش کی شکایت ہے، خود کو کھجا کھجا کر انہوں نے اپنا برا حال کر رکھا ہے۔”
ان لوگوں کی حکومت سے شکایات اپنی جگہ لیکن بعض فلاحی اداروں نے ان کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کی طرف توجہ ضرور دی ہے اور نہ صرف ان کے کنوؤں کی صفائی کروائی ہے بلکہ اب ان کیلئے ہینڈ پمپ بھی لگا رہے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن چارسدہ کے ایک اہلکار عظمت اکبر نے بتایا کہ انہوں نے چارسدہ میں پہلے چار سو سے زائد کنوؤں کو صاف کرایا اور اب ایک اور پراجیکٹ کے تحت ان کے لئے ہینڈ پمپ کی تنصیب شروع کر رکھی ہے، ”چار سو سے اوپر کنویں ہم نے شبقدر کے علاقہ، بیلہ میں، کتوزو میں، اس کے علاوہ سیخ مروزو میں، آگرہ، بابڑہ، اور جو چارسدہ کے علاقے ہیں سردریاب کے جو علاقے ہیں وہاں ہم نے ان کنوؤں کی صفائی کروائی اور اب ان کنوؤں کا پانی قابل استعمال ہے۔”
سیلاب سے متاثرہ چارسدہ کی عوام بالخصوص خواتین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے پانی کے مسئلے کی جانب خصوصی توجہ دی جائے کیونکہ اس کی وجہ سے انہیں شدید قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔