قبائلی عوام جرگہ کو عدالت پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟
فخر الاسلام کاکاخیل
قبائلی اضلاع سمیت جنوبی اضلاع اور پختون کلچر میں جرگہ سسٹم ایک مربوط اور قدامت پسند تاریخ رکھتا ہے اور یہ نظام اتنا ہی قدیم ہے جتنی قبائلی اور پشتون روایات!
انصاف کا حصول اور تنازعات کا جلد اور کم خرچ پر حل ہمیشہ انسان کی خواہش رہی ہے جس کی وجہ سے وہ مسائل بالخصوص تصفیہ طلب معاملات کے حل کیلئے آسان ترین عمل کا انتخاب کرتا ہے، دیکھنے میں آیا ہے کہ پختون علاقوں بالخصوص قبائلی علاقوں میں عوام انصاف کے حصول اور تنازعات کے حل کے لئے جرگہ سسٹم پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، جس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں؛ مثلاً فریقین کو آزادانہ اپنا اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم ہو جاتا ہے، جرگہ ثالثان کا انتخاب بھی فریقین باہمی مشاورت سے کرتے ہیں، اس عمل میں اخراجات بھی کم ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر فیصلہ کرتے ہوئے فریقین کو آئندہ خلاف ورزی نہ کرنے کا پابند بھی بنایا جاتا ہے اور یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ فیصلے کو فریقین تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔
اگرچہ حکومت نے پشتون ایریا اور قبائلی علاقہ جات میں عدالتی نظام متعارف کرا رکھا ہے مگر عوام کی 80 فیصد تک آبادی اس نظام پر جرگہ کے نظام کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ جرگوں کے فیصلے دیرپا ہوتے ہیں۔ اس جرگہ سسٹم کو صدیوں سے ہر طبقہ فکر نے تسلیم کیا ہے اور اس کو پختون کلچر کا اہم حصہ سمجھتا ہے۔
اگرچہ عدالتی نظام قائم ہے مگر یہ تاحال عوام اور قبائل میں مقبول نہیں ہو سکا تاہم قبائل میں تعلیم کے فروغ سے عدالتی نظام میں آسانیوں سے اور پھر عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے عملی اقدامات سے یہ نظام خود کو مضبوط کر سکتا ہے تاہم اس کے لئے دیگر پشتون روایات میں بھی انقلاب برپا کرنا ہو گا اور اس منزل کے حصول کے لئے دو سے تین دہائیوں کی سماجی ترقی اشد ضروری ہے۔
تحریک اصلاحات پاکستان کے مرکزی رہنماء اورکزئی قبائل کے ملک حبیب نور اورکزئی نے جرگہ سسٹم کو قبائل کی تاریخ اور قبائلی روایات کا ایک اہم ستون قرار دیتے ہوئے کہا کہ جرگہ سسٹم بروقت انصاف فراہم کرنے کا اور تنازعات کے خاتمے کا ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جو صدیوں سے اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے، قبائلی عوام اور پشتون بھی جرگہ سسٹم کی روایات، طور طریقوں اور انداز سے مکمل طور پر جان کاری رکھتے ہیں، ان جرگوں کے زریعے صرف فیصلہ کرنا مقصد نہیں ہوتا ان جرگوں کا سب سے اچھا اقدام یہ ہے کہ ان میں مصالحت ہوتی ہے اور فریقین کے درمیان ہر قسم کی ناراضگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کہ جرگے کی اہمیت کو ایسے عناصر نے متاثر کیا ہے جو تنازعات کے حل کے بجائے ذاتی مفادات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر، سینئر سیاست دان ڈاکٹر غازی گلاب جمال اورکزئی نے جرگہ سسٹم کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ فاٹا کے صوبے میں انضمام اور عدالتوں کے قیام کے باوجود قبائل اور پشتون بھرپور انداز میں جرگہ سسٹم پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سسٹم کے تحت نا صرف فوری انصاف ملتا ہے بلکہ فیصلے کے بعد دونوں فریقین میں سے کسی کو بھی فیصلے سے انحراف کرنے کی جرات نہیں ہوتی کیونکہ جرگہ ثالثان دونوں فریقین کو فیصلے پر عمل درآمد کا سختی سے پابند بنا دیتے ہیں۔
سابق ڈپٹی کمشنر اور سینئر بیوروکریٹ عطاء الرحمان اورکزئی سے جب جرگہ سسٹم کی افادیت یا اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے اپنی ہی کہانی دہرا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خاندان کے ایک دوسرے فریق کے ساتھ کئی دہائیوں سے کچھ معاملات پر تنازعات چل رہے تھے جس کے لئے 30 سال تک عدالتی نظام پر انحصار کیا، اس دوران خاندان والوں نے کئی بار جیل بھی کاٹی لیکن مسئلہ حل نہ ہوا تاہم جب علاقائی دستور کے مطابق ہم نے جرگہ سسٹم کے تھرو مسئلے حل کرنے کی کوشش کی تو چند ہفتوں کے اندر کئی سال پرانا مسئلہ افہام و تفہیم سے نا صرف حل ہو گیا بلکہ دونوں فریقین باہم شیر و شکر بھی ہو گئے۔
خاتون سوشل ایکٹیویسٹ نوشین فاطمہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ قبائلی جرگہ سسٹم سے 50 فیصد قبائل کی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے وہ اس سسٹم سے بالکل مطمئن نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ 50 فیصد پر مشتمل خواتین کی آبادی کو ابھی تک جرگہ سسٹم کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے تو یہ نظام اس طریقے سے بھی قبائل کی ترجمانی نہیں کرتا، جن قبائلی روایات کے تحت ہیومن رائٹس وائلیشن ہوتی ہے جہاں خواتین سے متعلق فیصلے میں خاتون کا موقف تک نہیں لیا جاتا تو ایسے نظام سے خواتین کیسے مطمئن ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں جرگوں کے زریعے فیصلے میں قانونی اور شرعی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ وومن رائٹس کی بھی خلاف ورزیاں سامنے آئیں، اب عدالتی نظام کے متعارف ہونے سے قبائلی خواتین کی توجہ آہستہ آہستہ عدالتوں کی طرف مرکوز ہوتی جا رہی ہے۔
جرگہ سسٹم اور عدالتی نظام کے متعلق جب پشاور ہائیکورٹ کے ایک سینئر وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل سے ان کی رائے معلوم کی گئی تو ان کا موقف تھا کہ عدالتی نظام کو ہر قسم کا قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے اور اس میں اگر فیصلے سے کوئی فریق مطمئن نہ ہو تو اس کے پاس انصاف کے لئے بہت سے آپشنز موجود ہوتے ہیں اور عدالتوں میں فیصلے شواہد اور قوانین کو سامنے رکھ کر کئے جاتے ہیں اس لئے عدالتی نظام کو پروان چڑھانا بہت ضروری ہے اس مقصد کے لئے حکومت اور اعلی عدلیہ کو جرگوں کے غیرقانونی اور غیراسلامی فیصلوں پر نوٹس لینا ہو گا جبکہ جرگہ سسٹم میں غلط فیصلوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی تو قبائلی عوام عدالتوں پر انحصار کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔
گزشتہ 20 سالوں سے قبائلی علاقہ اورکزئی پر نظر رکھنے والے صحافی طارق محمود مغل نے کہا کہ جرگہ سسٹم سے جہاں عوام کو فائدہ ہوا وہاں نقصانات سے بعض لوگ متاثر بھی ہوئے ہیں، تاحال علاقائی روایات کی وجہ سے کافی حد تک امن اور رواداری ہے اور عوام کے مسائل حل ہو رہے ہیں، خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے سمیت خواتین کے دیگر اہم معاملات پر جرگوں کے زریعے کچھ مثبت فیصلے نہیں ہوئے، اس کے لئے بنائے گئے قوانین پر فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ اگر عدالتی نظام کو مضبوط کرنا ہے تو اس کے لئے بنیادی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، عوام کو انصاف ملتا ہوا نظر آنا چاہئے تو ایسی صورت میں عوام جرگہ چھوڑ کر عدالتی نظام کی طرف رجوع کریں گے۔
اسلامی اور شرعی اعتبار سے رائے جاننے کے لئے مفتی کریم اختر اورکزئی کے ساتھ رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ عدالت اور جرگہ دونوں کا مقصد فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ہے، اسلام کے اندر دو فریقین کے درمیان تصفیہ کرنے کی بہت اہمیت ہے، ترمذی شریف میں ایک حدیث ہے جس میں خاتم النبین محمد رسول اللہ صحابہ کرام سے فرماتے ہیں کہ دو فریقین کے مابین صلح کرنا روزے سے بھی زیادہ افضل ہے، انگریز دور سے رائج ہمارے عدالتی نظام میں بہت سی خامیاں موجود ہیں جس سے صرف قبائل نہیں بلکہ ملک کی اکثریتی عوام مطمئن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک عالم دین کی حیثیت سے ان کا قبائلی عوام کے مشران سے مطالبہ ہو گا کہ کسی بھی جرگے میں علماء کرام کو شامل کرنا یقینی بنائیں تاکہ جرگہ میں اسلام اور شرعی قوانین کے مطابق انصاف پر مبنی فیصلے سامنے آئیں اور حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ عدالتی نظام میں فیصلہ دینے کے طریقہ میں اصلاحات کی جائیں تاکہ کوئی بھی فیصلہ جلد سے جلد اور بروقت ممکن ہو سکے۔
قبائلی علاقہ جات کو اگرچہ صوبے میں ضم کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک قبائلی علاقوں کا جو سیٹ اپ ہے وہ اسی روٹین کے مطابق ہے جو قبائلی علاقہ جات کے لئے ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلی اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز قبائلی علاقوں کے اندر بنائے جائیں اور تمام انفراسٹرکچر اور انتظامیہ وہاں پر ہونی چاہیے، قانون کی رٹ مستحکم ہو گی، عدالتیں اپنی جگہ بروقت انصاف فراہم کریں گی تو آہستہ آہستہ عوام کا رجحان قبائلی سیٹ اپ سے سیٹل ایریاز کے طریقہ کار کی طرف تبدیل ہوتا ہوا نظر آئے گا، قبائل بھی عملی طور پر قومی دھارے میں شامل ہو جائیں گے اور عوام کا رجحان جرگہ سے عدالت کی طرف ہو جائے گا۔