لائف سٹائلکالم

بسا بسایا گھر چھوڑ کر کسی اجنبی سرزمین جانا کوئی آسان کام نہیں

حمیرا علیم

آج یعنی 18 دسمبر کو دنیا مہاجرین کا دن مناتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ نے مختلف ایونٹس کے لیے دن تو مخصوص کر دیئے ہیں مگر انہیں صرف کاغذات یا دفاتر میں منا کر اپنا فرض پورا کر دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک پہلے مسلم ممالک پر حملے کرتے ہیں، انہیں تباہ و برباد کرتے ہیں، ان کے شہریوں کو ملک بدر ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں پھر انہیں پناہ دے کر اچھے بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ ان ممالک پر حملے نہ کریں تو ان مہاجرین کو خانہ بدوشوں جیسی زندگی نہ گزارنی پڑے۔

جنگ کی وجہ سے صرف شام میں سے تقریباً 68 ملین لوگ ہجرت کر کے دوسرے ممالک میں گئے۔ فلسطین سے دو ملین لوگوں نے ہجرت کی۔ دیگر ممالک جیسے کہ چین، افغانستان، عراق اور یمن وغیرہ سے بھی بڑی تعداد کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا۔ یہ آسان کام نہیں کہ کوئی شخص اپنا بسا بسایا گھر بار چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں کسی اجنبی سرزمین کی طرف چل دے۔ لیکن ان لوگوں کی مجبوری ہے کہ جان بچانے کے لیے انہیں یہ اقدام کرنا پڑتا ہے۔

کسی بھی ایسے ملک سے جہاں جنگ ہو رہی ہو دوسری جگہ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جس میں پیسہ اور جان دونوں ہی کا خطرہ ہوتا ہے۔ ہم اکثر ایسی رپورٹس دیکھتے ہیں جن میں ان مہاجرین سے بھری کشتیاں الٹ جاتی ہیں اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ جو زندہ بچ جاتے ہیں ان کی زندگیاں مُردوں سے بھی بدتر ہو جاتی ہیں۔ اپنے وطن کو چھوڑنے اور اپنوں کو کھونے کا دکھ انہیں زندہ لاشیں بنا دیتا ہے۔

ڈی ڈبلیو ٹی کو انٹرویو دیتے ہوئے نواف بتاتے ہیں: "میں وہ دن کبھی بھی نہیں بھلا سکتا جب دیرے زی زا، شام میں،  میرے گھر پہ شیلز کی بارش ہو رہی تھی، میری چھوٹی بیٹی چھپنے کیلئے کوئی جگہ ڈھوںڈ رہی تھی لیکن وہ معصوم نہیں جانتی تھی کہ کہیں بھی ایسی جگہ نہیں تھی جو ہمیں پناہ دے سکتی۔ اچانک ایک شیل ہمارے ساتھ والے گھر پہ گرا اور ہمارے گھر کی دیوار بھی ٹوٹ گئی۔ میری بیٹی ایک پتھر سے ٹکرا کر گری اور اس کے سر پہ چوٹ آئی اور آج تک اسے مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ میری بیوی نے مجھے صاف صاف کہہ دیا تھا "اب بھی اگر تم نے یہاں سے نکلنے کا نہ سوچا تو میں بچوں کو لے کر کہیں بھی چلی جاؤں گی۔”

نواف بتاتے ہیں کہ "جنگی گروہ لوگوں کو قتل کرنے، لوٹنے اور ڈرانے کیلئے بدنام ہیں۔ ہم ایک جہنم میں رہ رہے تھے۔ جو کچھ ہم پہ بیتی آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور جو کچھ میڈیا آپ کو دکھا رہا ہے وہ تو صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے اس ظلم کا جو ہم سہہ رہے ہیں۔”

اکثر پناہ گزینوں کو کسی دوسرے ملک میں جانے کیلئے اپنا گھر بار، زیورات حتی کہ کبھی کبھار اپنے قیمتی برتن اور کپڑے تک بیچنے پڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی بھی پناہ گزین کا اپنا ملک چھوڑ کے دوسرے ملک جانے کا سفر کبھی بھی مختصر اور آرام دہ نہیں ہوتا۔ نواف اور ان کا خاندان پہلے کسی قریبی ملک میں جانا چاہتے تھے تاکہ جب جنگ ختم ہو تو واپس گھر کو لوٹ سکیں مگر آئی ایس نے 2013 سے 2017 تک  ملک سے باہر جانے کے رستوں پہ سخت پہرہ لگا کر اپنے کنٹرول میں کر لیا تھا لہذا کوئی بھی باہر نہیں جا سکتا تھا۔

جنگ کے متاثرین کو رہائش، کپڑے جوتے، کھانا، ادویات اور دوسری اشیاء روزمرہ کی ضرورت تھی۔ مگر آئی ایس امداد کو ان تک پہنچنے ہی نہ دیتی تھی۔ 2017 میں نواف اپنے خاندان کے ساتھ دمشق پہنچے اور جنگ کی وجہ سے اپنے کھو جانے والے شناختی کاغذات بنوائے۔ 2018 میں وہ بیروت بھاگ گئے تاکہ اپنے ویزے کیلئے انٹرویو دے سکیں کیونکہ انہیں لبنان سے اپنے کاغذات عمان میں برطانوی ایمبیسی بھجوانے تھے لیکن ان کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا۔ پھر بار بار یہی عمل دہرایا جاتا رہا۔

”ہمارے پاس پیسے ختم ہو رہے تھے، ویزہ آفیسر چاہتا تھا کہ میں اسے ثبوت پیش کروں کہ یہ میرے بیوی بچے ہیں، یہ ایک فضول سا اعتراض تھا۔ ہم نے ہر وہ ضروری دستاویز مہیا کر دی تھی جو قونصلیٹ نے مانگی تھی۔ یہ ایک مشکل وقت تھا۔ پھر میں نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ اس نے ڈی این اے ٹیسٹ سے ہمیں ایک خاندان ثابت کیا اور اپیل دائر کر دی لیکن ہمیں پھر ایک سال تک انتظار کرنا پڑا۔ لیکن 2019 میں کووڈ کی وجہ سے ہمیں لگا ہم کبھی بھی یہاں سے نکل نہیں سکیں گے۔

ہمیں بتایا گیا کہ لبنان میں موجود قونصلیٹ سے اپنے ویزے لے لیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ صرف چھ ویزے لگے ہیں میری بیوی اور سب سے چھوٹے بیٹے کو ویزا نہیں ملا تھا مگر میری بیوی نے مجھے کہا "آپ بچوں کو لے کر چلے جائیں۔ میں اور احمد جلد ہی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ یوں میں پانچ بچوں کے ساتھ کونٹری آ گیا۔ ہم انتظار کر رہے ہیں کہ میری بیوی اور بیٹا جلد از جلد ہم سے آ ملیں۔ امید ہے کہ وہ لوگ جلد ہی ہمارے پاس ہوں گے۔ ان چند سالوں میں ہم نے پناہ گزین کیمپس میں بھوک، گرمی، سردی، بیماری اور اپنوں کی اموات دیکھی ہیں۔ میری دعا ہے کہ کوئی بھی اس سب سے نہ گزرے جس سے ہم گزرے ہیں۔” نواف نے بتایا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button