لنڈی کوتل کی پہلی گرلز سائیکل ریلی کے منتظمین کو دھمکیاں ملنے لگیں
خالدہ نیاز
ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کے لیے سائیکلنگ کیمپ کے بعد منتظمین کو دھمکیاں ملنے لگیں۔
سائیکلنگ کیمپ کی منتظم جمائمہ آفریدی نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے بین الاقوامی پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان کے ساتھ مل کر اس ایونٹ انعقاد کرایا لیکن اب ان کو کمیونٹی کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
لنڈی کوتل کی رہائشی ،فری لانس صحافی جمائمہ آفریدی کا کہنا تھا کہ ایونٹ سے پہلے انہوں نے ثمر خان کے ساتھ باقاعدہ پلاننگ کی تھی لیکن وہ جب بھی علاقے میں اس کا ذکر کرتی تو ان کو یہی جواب ملتا کہ قبائلی اضلاع میں اس طرح کے ایونٹ کا انعقاد ناممکن ہے کیونکہ اس طرح کے ایونٹ کا انعقاد تو خیبر پختونخوا میں بھی ممکن نہیں ہے، ”پھر میں نے اپنے گھر والوں سے بات کی کہ میں نے اس طرح لڑکیوں کے لیے سائیکلنگ کیمپ کرنی ہے گھر والوں نے میرا ساتھ دیا اور یہ ایونٹ انہی کی مدد سے ممکن ہوا ہے۔”
جمائمہ آفریدی نے کہا کہ اس کے بعد انہوں نے علاقے میں مقامی لوگوں کو راضی کیا کہ وہ اس طرح لڑکیوں کے لیے سپورٹس ایونٹ کرنا چاہتی ہیں، ایک دن انہوں نے گھر میں لڑکیوں کو پریکٹس کروائی اور اس کے بعد تاتارا گراؤنڈ میں سائیکلنگ ریس کروائی۔
پہلی مرتبہ انعقاد کیے جانے والے سائیکلنگ کیمپ میں لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والی 15 خواتین نے حصہ لیا جبکہ کیمپ کا انعقاد گلوبل اسپورٹس مینٹورنگ پروگرام کے تحت کیا گیا۔
”لڑکیاں بہت زیادہ خوش تھیں اور میں اس بات پہ حیران ہوں کہ لڑکیوں نے اس کو اتنا انجوائے کیا کہ وہ بس نہیں کر رہی تھیں اور انہوں نے بہت جلد بیلنس کرنا سیکھا۔” جمائمہ نے بتایا۔
جمائمہ آفریدی کے مطابق ان کے اس ایونٹ کا مقصد قبائلی خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کو صحتمندانہ سرگرمیوں کی جانب راغب کرنا ہے لیکن ان کو اس کے بعد نہ صرف تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اب ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں اور اس ایونٹ کے خلاف احتجاج بھی ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتیں لیکن حکومت کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہ سٹینڈ لے سکتی ہیں لیکن ہر لڑکی نہیں لے سکتی اور انہوں نے روایتی لباس میں اس کا انعقاد کیا ہے۔
ثمر خان نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ اس ایونٹ سے ان کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح سائیکلنگ سے ان میں حوصلہ پیدا ہوا ہے اور وہ ہر فورم پر پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں وہی حوصلہ قبائلی لڑکیوں میں بھی آئے، ”ان کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ قبائلی لڑکیوں میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور قبائلی مرد بھی خواتین کو سپورٹ کرتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ ان لڑکیوں کو صرف مواقعوں کی ضرورت ہے، ”یہ بہت آگے جا سکتی ہیں اور ملک اور قوم کا نام روشن کر سکتی ہیں۔”
خیال رہے کہ آج لنڈی کوتل میں گرلز سائیکل ریلی کے خلاف جماعت اسلامی کی قیادت میں مذہبی جماعتوں کا اک احتجاجی مظاہرہ ہوا، مظاہرین نے ریلی کو بے حیائی اور علاقہ کی روایات کے خلاف قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کی وہ بالکل بھی اجازت نہیں دیں گے، اور یہ کہ خواتین کو پردے میں رہنا چاہئے نہ کہ اس طرح سرگرمیاں کریں۔