بلاگزجرائم

پھانسی، پھانسی گھاٹ کی کہانی ایک جلاد کی زبانی

شازیہ نثار

چہرے پر دہشت اور خوف کے کوئی آثار نہیں تھے؛ نہ ہی ڈراموں کے ولن جیسی جسامت اور قد کاٹھ کا مالک تھا مگر بظاھر عام سے دکھنے والے اس عمر رسیدہ شخص کے چہرے پر پھیلی خاموشی اتنی خوفناک تھی کہ ایک بار دیکھنے کے بعد سوچ اور تجسس سے نظر کا زاویہ دوبارہ وہیں جا کے روکتا، سر جھکائے یہ شخص جیل میں گھوم پھر رہا تھا۔

جب میرا تجسس بڑا تو پوچھا یہ آدمی کون ہے؟ ”یہ جلاد ہے۔۔” ابھی اتنا ہی سنا تھا کہ خوف اور حیرت سے آنکھیں پھر اسی شخص کا محاصرہ کر گئیں۔ میرے اسرار پر مجھے آج حقیقت میں جلاد سے بات کا موقع ملا۔

وہ سر جھکائے میری بات کا پہلے تو ہاں ہوں میں جواب دیتا رہا مگر تھوڑے وقت کے بعد اس کی لبوں کی خاموشی نے لفظوں کا روپ دھارا تو میرے نام اور تصویر ظاہر نہ کرنے کے وعدے پر بات کیلئے راضی ہوا۔

یہ کہانی ہے خیبر پختونخوا کی جیلوں کے جلاد کی جو نہ صرف پشاور بلکہ صوبے کی باقی جیلوں میں بھی سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دینے کی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔

جلاد کا کہنا تھا کہ پہلی پھانسی دیئے برسوں گزر گئے مگر وہ رات جتنی اذیت ناک اور بھاری تھی اس کا بیان کرنا مشکل ہے، ”کئی دن پہلے سے راتوں کو سو نہیں پا رہا تھا، کئی بار سوچا کہ نوکری ہی چھوڑ دوں، تذبذب کا شکار جب پھانسی سے ایک دن پہلے بتایا گیا ”رات جیل میں گزارنا علی الصبح پھانسی ہو گی۔” یہ جانتے ہوئے کہ پھانسی پانے والے قیدی نے بھی کسی کا قتل کیا تھا مگر پھر بھی پورا دن اور کئی راتیں وہ منظر آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا اور سوچ اسی لمحے میں جکڑی تھی، اس قیدی کے چہرے پر پھیلی بے بسی، آنکھوں میں دہشت اور سانسیں چھن جانے کا وہ خوف بار بار یاد آتا تھا۔

اس کے بعد کب کس کو تختہ دار تک لے جانا ہے، پھانسی کے وقت میری نظر وہاں پر موجود افسران کے اشارے کی منتظر ہوتی تھی اور رسی کا ہینڈل کھینچتے ہی نجانے کہاں سے جیسے منوں بوجھ کندھوں پر آن گرتا اور پھر پورا دن جیسے بے حس ہو کر صرف سانس لیتا تھا، کوئی احساسات نہیں ہوتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ یہ سوچنا اور محسوس کرنا چھوڑ دیا۔

جیل میں سردی اور گرمی کے موسم میں الگ الگ اوقات کار ہوتے ہیں، پھانسی سردی اور گرمی کے موسم کے مطابق فجر سے پہلے جاتی ہے اور یوں میں پھانسی کی رات جیل میں ہی موجود ہوتا ہوں۔

اور پھانسی کا وقت قریب آتے ہی مقررہ وقت کیلئے رات کو ہی کال کھوٹڑی میں پھانسی کے منتظر قیدی کو سخت سیکورٹی میں تختہ دار لایا جاتا ہے، میں پہلے سے ہاتھ میں کالا نقاب اور رسیاں لے کر کھڑا ہوتا ہوں اور مجرم کو تختہ دار پر کھڑا کر کے پہلے اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے باندھ دیتا ہوں اور پھر اس کے چہرے کو کالا نقاب پہنا کر گلے میں پھانسی کا پھندا ”منیلا روپ” (رسی ) ڈال کر اگلے ہی لمحے اس ہنڈل پر پہنچ جاتا ہوں جس سے مجرم کے پاؤں تلے سے تختہ کھینچنا ہوتا ہے، اور پھر پلک جھپکتے ہی قیدی لٹک کر نیچے چلا جاتا ہے، آدھا گھنٹے تک مجرم کی لاش اس رسی سے لٹکی رہتی ہے۔ اب تو بس ڈیوٹی سمجھ کر کرتا ہوں، کبھی کبھار تو ایک مہینے میں 2 سے تین قیدیوں کو بھی پھانسی دی ہے۔

سب سے زیادہ پھانسیاں سال 2006 میں دی ہیں، صرف سنٹرل جیل پشاور میں 2003 سے 2018 تک مختلف مقدمات میں سزاۓ موت پانے والے 17 مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا، اب صاف بات کہوں یا تو احساس نہیں رہا یا یہ سوچ کر زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ پھانسی پر لٹکنے والے نے بھی تو کسی کا گھر اجاڑہ ہے۔”

جیل حکام کا کہنا ہے کہ ہم عدالتی حکم کے پابند ہوتے ہیں اور تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد پھانسی دی جاتی ہے، پھانسی کے وقت جوڈیشل مجسٹریٹ، سپرانٹنڈنٹ جیل، میڈیکل آفیسر جیل اور جیل عملہ موجود ہوتا ہے۔ پھانسی کے 30 منٹ بعد موقع پر موجود ڈاکٹر لاش چیک کر کے میڈیکل سرٹیفیکیٹ تیار کرتا ہے جس کے بعد لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button