لڑکیاں میڈیکل کی ڈگری لے کر فیلڈ میں کیوں نہیں آتیں؟
خالدہ نیاز
‘میں بہت خوش تھی کہ میری ڈگری مکمل ہو گئی ہے اور اب میں ہاؤس جاب کر رہی ہوں، جلد ہی میں اس قابل ہو جاؤں گی کہ مریضوں کا علاج کر سکوں گی لیکن اچانک میری زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آ گئی جس نے مجھ سے میرے سارے خواب چھین لیے۔’
کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی ہما نے 2014 میں خیبر کالج آف ڈینٹسٹری سے گریجویشن مکمل کی اور اس کے بعد چھ ماہ ہاؤس جاب بھی کی لیکن جب فیلڈ میں آنے کا وقت آیا تو اس دوران گھر والوں نے ان کا رشتہ طے کر دیا اور یوں ان کے سارے خواب ملیامیٹ ہو گئے۔
منزل کے قریب سارے خواب چکناچور
ہما کے مطابق ان کو شروع ہی سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور اسی شوق کو لے کر وہ میڈیکل فیلڈ میں آئی تھیں لیکن ان کو اندازہ نہیں تھا کہ جب وہ اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ جائیں گی تو ان کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
ہما کا کہنا تھا کہ جب ان کا رشتہ طے ہوا تو ان کے سسرال والوں نے یہ کہہ دیا کہ ان کو بہو کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے لہذا اس کو نوکری کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کو کون سمجھاتا کہ نوکری صرف کمائی کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ بعض فیلڈز میں جانے سے انسان کو دلی سکون ملتا ہے، بعض لڑکیوں کاجذبہ ہوتا ہے کہ وہ فیلڈ میں جا کر معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
ہما کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں کئی خواتین اچھا نہیں سمجھتیں کہ مرد ڈاکٹر ان کا علاج کرے اور کچھ ہماری اقدارو روایات بھی ایسی ہیں تو اس وجہ سے ان کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ وہ خود دینٹسٹ بن کر خواتین کا علاج کریں گی لیکن وہ یہ نہ کر پائیں اور اس بات کا دکھ ان کو پوری زندگی رہے گا۔
سسرال والوں کی جانب سے اجازت نہیں ملتی
ایک سوال کے جواب میں ہما نے بتایا کہ لڑکیاں میڈیکل کی ڈگری لے تو لیتی ہیں لیکن وہ فیلڈ میں نہیں آتیں، اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے بڑی وجہ گھر والوں یا سسرال والوں کی جانب سے ان کو اجازت نہ ملنا بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی سے خواتین ڈاکٹرز کی کمی ہے ایسے میں اگر پروفیشنل خواتین بھی فیلڈ میں نہیں آئیں گی تو اس سے ایک تو ڈگری لینے والی لڑکیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور دوسرا اہم مسئلہ یہ ہو گا کہ خواتین کو صحت کی سہولیات حاصل کرنے میں دشواری ہو گی کیونکہ کئی مرد ایسے ہیں جو اپنی خواتین کو مرد ڈاکٹرز سے علاج نہیں کرنے دیتے اور جب خواتین فیلڈ میں نہیں ہوں گی تو یہ خواتین کہاں سے علاج کریں گی۔
50 سالہ زینت بی بی جو ضلع نوشہرہ کے ایک دوردراز گاؤں کی رہائشی اور اکثر بیمار رہتی ہیں، انہوں نے ہما کی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ ہمارے ملک کے دیہاتی علاقوں میں اب بھی مرد خواتین کو مردوں ڈاکٹرز سے علاج کی اجازت نہیں دیتے جبکہ خواتین ڈاکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، وہ جب بھی بیمار ہوتی ہیں تو گھر میں ہی موجود ٹیلبٹ لے لیتی ہیں کیونکہ مرد ڈاکٹر کے پاس جانے کی ان کو اجازت نہیں ملتی اور خواتین ڈاکٹرز ہیں نہیں جس کی وجہ سے اب ان کے گردوں میں بھی کافی مسائل آ چکے ہیں۔
ہما اکیلی خاتون نہیں ہیں جن کو ازدواجی زندگی کی وجہ سے پروفیشن کو خیرباد کہنا پڑا بلکہ ان جیسی کئی خواتین ہیں جن کو گھریلو یا باقی مسائل کی وجہ سے فیلڈ کو چھوڑنا پڑا۔
فیلڈ چھوڑ کر بچوں کی دیکھ بھال کرو
ڈاکٹر مہناز بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ڈاکٹر مہناز نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد گائنی میں ایم سی پی ایس کیا، بعد ازاں ان کو ایک سرکاری ہسپتال میں نوکری مل گئی لیکن وہاں ان کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی ان کو فیلڈ چھوڑنی پڑی۔ مسائل کے بعد گھر والوں نے ان سے کہا کہ وہ فیلڈ چھوڑ کر بچوں کی دیکھ بھال کریں جس کے بعد انہوں نے نوکری چھوڑ دی۔
پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن کی بانی اور پاک انٹرنیشنل میڈیکل کالج کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ عابد کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو فیلڈ میں ضرور آنا چاہئے، اس سلسلے میں والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بچیوں کی ذہن سازی ایسے انداز میں کریں کہ وہ میڈیکل ڈگری لینے کے بعد فیلڈ میں جائیں نہ کہ گھر بیٹھ جائیں۔
ڈاکٹر صائمہ عابد کا کہنا ہے کہ میڈیکل فیلڈ میں آنے سے نہ صرف لڑکیاں خواتین کا علاج معالجہ اچھے طریقے سے کر سکتی ہیں بلکہ وہ خاندان کو معاشی طور پر بھی مدد فراہم کر سکتی ہیں اور مشکل وقت میں گھر والوں کا سہارا بھی بن سکتی ہیں۔
میڈیکل کالجز میں 80 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں لیکن فیلڈ میں 20 فیصد لڑکیاں آتی ہیں
انہوں نے ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیکل کالجز میں 80 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں لیکن فیلڈ میں 20 فیصد لڑکیاں آتی ہیں۔ ڈاکٹر صائمہ عابد کے مطابق زیادہ تر لڑکیوں کی شادیاں ہو جاتی ہیں اور وہ اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ مصروف ہو جاتی ہیں جبکہ کچھ کو سسرال والوں کی جانب سے فیلڈ میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین فیلڈ میں کم ہوں گی تو اس کا براہ راست نقصان خواتین ہی کو ہو گا کیونکہ خواتین ڈاکٹرز دوسری خواتین کا بہتر طریقے سے علاج کر سکتی ہیں۔
یاد رہے سماجی ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ”کرائسز آف اِن ایکویلٹی شفٹنگ پاورز فار آ نیو ایکو سوشل کنٹریکٹ” کے نام سے رواں برس ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کا بنیادی مقصد دنیا میں برابری کو تقویت دینا اور بغیر صنفی تفریق کے صحت، تعلیم اور باقی شعبہ جات میں برابری کو فروغ دینا ہے۔
کام کی جگہوں کو سازگار بنانے کی ضرورت ہے
امجد علی جو خود ایک ڈینٹیسٹ ہیں، انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ لڑکیاں میڈیکل کالجز کی جانب زیادہ آتی ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ انٹری ٹیسٹ کوالیفائی کرتی ہیں، بہت زیادہ محنت کرتی ہیں، میٹرک ایف ایس سی لیول پر بھی ان کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ ان مشکلات کا مقابلہ کر کے میڈیکل کالجز تک پہنچتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لڑکیاں ہاسٹل لائف، معاشی مسائل کے باوجود ایک مقام تک پہنچتی ہیں جس کے بعد ان کو گھریلو مسائل کے علاوہ معاشرے میں باقی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی ان کی پوسٹنگ ایسے دوردراز کے علاقوں میں کر دی جاتی ہے جہاں وہ خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں تو کبھی ان کو کام والی جگہوں پر ہراسمنٹ کا بھی سامنا ہوتا ہے اور خواتین کو اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہوتیں، اور اگر ہوتی بھی ہیں تو وہ ڈرتی ہیں کہ اگر کچھ کہیں گی تو ان کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔
ہما اور ڈاکٹر امجد نے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں میں اس فیلڈ کی اہمیت کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے سازگار ماحول بھی بہت ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین ڈاکٹرز فیلڈ میں کام کر کے باقی خواتین کو صحت کی سہولیات دے سکیں۔