لائف سٹائل

یورپ کا غیرقانونی سفر: بہتر مستقبل کی خواہش یا موت کی تلاش

ریحان محمد

ضلع کرم میں 2006 سے 2012 تک شعیہ سنی فسادات اور دہشت گردی کی وجہ سے روزگار ختم ہو چکا تھا اور آمد ورفت کے راستے بند ہو گئے تھے جس کی وجہ سے مقامی آبادی کو اشیائے خوردونوش کا حصول کافی مشکل بن گیا تھا۔ ان حالات کی وجہ سے علاقے کے نوجوان اپنے ہی گھروں تک محدو ہو گئے تھے۔ نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہو رہا تھا، بدامنی اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ذہنی طور پر بیمار بن چکے تھے۔ ان حالات میں ہر کوئی ایسے مواقع کی تلاش میں تھا کہ خود اور خاندان والوں کا مستقبل بہتر بنا سکے۔

بدامنی کی اس لہر میں ضلع کرم کے بہت سے نوجوانوں نے 12-2011 میں غیرقانونی طریقے سے بیرونی ممالک جانے کا فیصلہ کیا جس کیلئے اُنہوں نے خواتین کے زیورات اور جائیدایں فروخت کر کے یا بھاری قرض لے کر ایجنٹ کو پیسے ادا کئے اور آسٹریلیا جانے کا فیصلہ کیا لیکن بدقسمتی سے ان کو بحرہند میں حادثے پیش آئے جن میں پاڑہ چنار کے نوجوانوں سمیت 300 کے قریب پاکستانی نوجوان ہلاک ہو گئے تھے۔

2012 میں پاڑہ چنار کے 50 کے قریب نوجوان غیرقانونی طریقے سے بیرون ممالک جانے کیلئے ضلع کرم شبلان کے رہائشی ایک ایجنٹ کے ساتھ روانہ ہوئے، ضلع کرم سمیر گاؤں کے 24 سالہ اسد حسین بھی ان لوگوں میں شامل تھے جس کیلئے ان کے والد لیاقت حسین نے قرض لیا تھا تاکہ ان کا بیٹا اپنے لئے بہتر مستقبل ڈھونڈ سکے لیکن بدقسمتی سے ان کو بحرہند میں حادثہ پیش آیا اور وہ اپنے دو سو کے قریب دوستوں سمیت جاں بحق ہو گئے۔

اُن کے خاندان والوں کو کئی مہینوں تک خبر نہیں تھی، ان کے خاندان والے ایک منٹ بات کیلئے ترس رہے تھے کہ ان کو ایجنٹس اور کشتی میں بچ جانے والے افراد کی طرف سے خبر ملی کہ ان کا بیٹا کشتی سمیت سمندر میں ڈوب گیا ہے۔ اسد حسین کے دو بیٹے ہیں۔

وہ جنوری 2012 میں اپنے گھر سے آسٹریلیا کیلئے روانہ ہوئے اور 21 جون 2012 کو بحرہند میں حادثے کا شکار ہوئے۔ آسٹریلوی حکام ان کو ہسپتال لے گئے جہاں سے اسد کی لاش کو پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔

اسد حسین کے بڑے بھائی ممتاز حسین کا کہنا تھا کہ اُن کا بھائی بہت قابل اور ذہین تھا لیکن بدامنی کی وجہ سے اس کی پڑھائی بیچلر میں ہی ادھوری رہ گئی تھی اور وہ سفر کرنے سے نفرت کرتا لیکن علاقے میں بدامنی اور راستوں کی بندش کی وجہ سے وہ ذہنی طو ر پر بیمار بن گیا اور اچانک آسٹریلیا جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسد حسین کو بہت منع کیا لیکن وہ نہیں مان رہا تھا، اسد حسین نے پہلے مقامی ایجنٹ کو پانچ لاکھ روپے دیئے اور لاہور سے انڈونیشاء وزٹ ویزے کے ذریعے لے جانے کا معاہدہ ہوا۔

ممتاز حسین کا کہنا تھا کہ انڈونیشاء پہنچنے کے بعد ہم نے دوبارہ تین لاکھ روپے بھیجے جہاں سے ان کو کشتی کے ذریعے آسٹریلیا لے جانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایجنٹس نے ان تمام لوگوں کے ساتھ دھوکہ کیا تھا کیونکہ ایک چھوٹی سی کشتی جس میں سو لوگوں کی گنجائش تھی لیکن اس میں دو سو سے زیادہ لوگوں کو سوار کر کے آسٹریلیا کی طرف روانہ کیا گیا اور اسی وجہ سے کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔

پاکستان سے یورپ جانے کیلئے آسان راستہ ترکی ہے جہاں سے زیادہ تر افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، انڈیا اور دیگر ممالک کے لوگ غیرقانونی طریقے سے جاتے ہیں۔ سال 2022 میں ایک لاکھ کے قریب افراد کو ترکی حکومت نے گرفتار کر کے اپنے ممالک واپس بھیجا۔ سال 2021 میں ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق روزانہ تین سو کے قریب لوگ پاکستان سے 138 ممالک کو غیرقانونی طریقے سے جاتے ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے مطابق رواں سال خیبر پختونخوا سے انسداد انسانی سمگلنگ کی چار سو ایف آرز درج ہوئیں جن میں 369 افراد گرفتار ہوئے جبکہ 355 کو عدالتوں کی طرف سے سزائیں ملیں۔ ادارے کو 378 شکایات موصول ہوئیں، 328 میں انکوائری ہوئی جبکہ ادارے کو 200 شکایات سیٹزن پورٹل کے ذریعے موصول ہوئیں جن میں اندرون ملک سمیت بیرون ممالک میں موجود پاکستانی شہریوں نے اپنی شکایت ادارے تک پہنچائیں۔ جبکہ ایجنٹس سے معلومات حاصل کرنے والوں کے مطابق خیبر پختونخوا سے سب سے زیادہ قبائلی اضلاع اور پورے پاکستان سے پنجاب کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ترکی کے راستے یونان جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ممتاز حسین کا کہنا تھا کہ اسد کی لاش لانے کیلئے انہوں نے اپنے علاقے کے ایم این اے اور ایک آسٹریلین صحافی کے ساتھ رابطہ کیا اور بڑی مشکل کے بعد اس کی لاش سمیت 16 دیگر افراد کی لاشیں ایک مہینے بعد وطن واپس لائی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے بچوں کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا والد اسد حسین سفر کے دوران حادثے میں ہلاک ہو چکا ہے بلکہ ابھی تک ان کو بتاتے ہیں کہ آپ کا والد آسٹریلیا میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسد کی ماں ہر خوشی کے موقع پر اس کو یاد کرتی ہے اور اس دن سے لے کر آج تک وہ بیمار پڑی ہے۔

آسٹریلیا جانے والوں میں ضلع کرم کا نبی حسین بھی شامل تھا۔ نبی حسین کی دو بیٹیاں ہیں اور وہ بھی اپنے علاقے میں بہتر زندگی گزار رہا تھا لیکن بدامنی کی وجہ سے راستوں کی بندش نے اس کی زندگی بھی اجیرن کر دی تھی۔

اُنہوں نے بھی اسد حسین کے ساتھ آسڑیلیا جانے کا فیصلہ کیا اور ساری جمع پونجی بھیجنے کے بعد روانہ ہو گئے لیکن وہ بھی بحرہند میں جاں بحق ہو گیا۔ نبی حسین کی ماں کو جب معلوم ہوا کہ علاقے کے دوسرے لوگوں کی لاشیں لائی گئی ہیں جن میں ان کا بیٹا نہیں ہے تو وہ اچانک بے ہوش ہو کر گر پڑیں، ایک ماہ تک ہسپتال میں زیرعلاج رہیں۔ نبی حسین کی ماں کی بس اب ایک ہی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے کی قبر معلوم ہو جائے تاکہ وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر فاتحہ خوانی اور دعا کر سکیں۔

نبی حسین کے خاندان والے پھر پارہ چنار شہر میں ایک خالی تابوت بنا کر لائے اور اس کی ماں سے کہا کہ وہ دیکھنے کے قابل نہیں اس لئے آپ تابوت نہ کھولیے اور نبی حسین کے نام پر خالی تابوت کو دفن کیا گیا۔ نبی حسین کی ماں وہاں روزانہ جاتیں اور زار و قطار روتی تھیں۔

نبی حسین کے بڑے بھائی حاجی احمد حسین کا کہنا ہے کہ ان کی ماں اس وقت سے بلڈپریشر اور شوگر کے مرض میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ نبی حسین کی موت کے چند مہینے بعد ان کی ماں فوت ہو گئی اور اسی غم کی وجہ سے اُن کے والد بھی اس دنیا سے چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ نبی حسین کی بیوی اور بچے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

2006 میں لوئر کرم مروخیل سے تعلق رکھنے والے جمال خان اس وقت کی پولیٹیکل انتظامیہ میں پولیٹیکل محرر کی حیثیت سے سرکاری عہدے پر فائز تھے، اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے لیکن اُن کا گھر شعیہ سنی فسادات میں مسمار ہو چکا تھا، ان کے گاؤں کے راستے بند تھے، سرکاری ڈیوٹی کرنا بھی ان کیلئے دشوار تھا ان حالات میں اُنہوں نے بھی اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے 2011 میں آسٹریلیا جانے کا فیصلہ کیا لیکن بدقسمتی سے وہ بھی بحرہند کی نذر ہو گئے، ان کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہیں۔ جمال کے ساتھ بگزائی گاؤں کا واجد نامی شخص بھی تھا۔ واجد کے بھائی مجیب الرحمن کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے ان کا ایک رشتہ دار آسٹریلیا جانے میں کامیاب ہو گیا تھا اس وجہ سے انہوں نے بھی جانے کا ارادہ کیا لیکن بدقسمتی سے ان کا بھائی کامیاب نہ ہو سکا اور آج تک ان کا پورا خاندان واجد خان کے غم کو بھلا نہ سکا۔

ڈاکٹر انور اورکزئی انسانی حقوق اور خاص طور پر نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے کام کرتے ہیں؛ ان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی لوگ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ غیرقانونی مائیگریشن اس لئے عام ہے کہ کرم ایک پسماندہ دوردراز علاقہ ہے جہاں کے لوگ بوجہ مجبوری اور بہتر مستقبل کی تلاش میں علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 2006 کے بعد دہشتگردی اور انتہاپسندی نے ضلع کرم کو بہت زیادہ متاثر کیا جس کی وجہ سے نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا جس کی بناء وہ غیرقانونی طور پر بیرون ممالک کو مائیگریشن پر مجبور ہو گئے لیکن وہاں پہنچنے کیلئے کئی نوجوان اپنی زندگیوں کے چراغ گل کر کے اپنے خاندان والوں کیلئے زندگی بھر نہ بھولنے والا غم چھوڑ گئے۔ ان میں زیادہ تر ان علاقوں کے لوگ شامل تھے جن کے گھر بار دہشتگردی کی وجہ سے تباہ ہو چکے تھے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو کہ سرکاری ملازمین تھے اور کافی خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے مگر امن وامان کے لا ینحل مسئلے نے ان کو غیرقانونی ہجرت پر مجبور کر دیا۔

پاکستان میں انسداد انسانی سمگلنگ کے قوانین میں پریونشن آف سمگلنگ آف ایمگریشن 2018 ایکٹ کے مطابق غیرقانونی انسانی سمگلنگ کرنے والوں کو پانچ سال تک کی سزا اور دس روپے جرمانے کی سزا ہے۔

ایف آئی اے کے پاس انسداد انسانی سمگلنگ کے لئے 1979 ایمگریشن آرڈننس، 1974 کے پاسپورٹ ایکٹ، پرویژن آف ٹریفیکنگ ان پرسن ایکٹ 2018 اور پریونشن آف سمگلنگ آف ایمگریشن 2018 ایکٹ کے تحت کاروائی کا اختیار ہے۔
غیرقانونی طریقے سے بیرون ممالک لے جانے کیلئے ایجنٹس نوجوانوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور بیرون ممالک میں بہترین زندگی اور روزگار کے مواقع ہونے کی جھوٹے کہانیاں سناتے ہیں۔

ضلع کرم کے رہائشی حسین خان (فرضی نام) انسانی سمگلنگ کے ایجنٹ تھے، انہوں نے کہا کہ پاکستان سے بیرون ممالک پہنچانے کیلئے بہت سے ایجنٹس درکار ہوتے ہیں؛ ایک گاؤں میں ہوتا جس کا کام گاؤں سے نوجوانوں کو غیرقانونی طریقے سے راغب کرنا ہوتا ہے پھر ایک شہر میں، جو شہر میں دستاویزات کو مکمل کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس طریقے سے بعض کا کام بارڈر کراس کرانا ہوتا ہے، ہر ملک میں پھر ان لوگوں کو دوسرے ایجنٹس کو حوالے کیا جاتا ہے اور بعض ایجنٹس ان کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ لے کر جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ علاقے کے لوگوں کو باہر جانے کیلئے راغب کرتے اور ان سے پیسے لے کر اس میں اپنا کمیشن لیتے جبکہ باقی کی رقم آگے ایجنٹس کو دیتے تھے، بعض کیسز میں ایران یا دوسرے ممالک تک لے جانے کے بعد مزید رقم لینے کی بات کرتے اور وہاں پہنچنے کے بعد مزید رقم ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود پہلے ایران تک گئے تھے جہاں سے واپس آنے کے بعد ایجنٹ کا کام شروع کیا۔

حسین خان کا کہنا ہے کہ ضلع کرم میں بہت سارے ایجنٹس تھے جو سالانہ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوانوں کو غیرقانونی طریقے سے بیرون ممالک لے جاتے تھے لیکن اب ترکی ایران بارڈر کراس کرنے میں شدید مشکلات کی وجہ سے بہت کم لوگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایجنٹس میں بھی کافی کمی آئی ہے جبکہ دوسری جانب ایف آئی اے کی کارروائیوں کی وجہ سے بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

معلومات کے مطابق لوگ پاکستان سے دو طریقوں سے بیرون ممالک جاتے ہیں۔ ضلع کرم کے رہائشی ایجنٹ شفیق خان (فرضی نام) نے بتایا کہ ایک طریقے میں بغیر ویزے کے جس میں سمندری اور زمینی راستوں سے کوئٹہ سے ایران، ترکی اور یونان سے ہوتے ہوئے یورپ کے دوسرے ممالک تک کا سفر کیا جاتا ہے، ان اسفار میں لوگوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا ہے، انہیں کنٹینرز میں بند کیا جاتا ہے اور کئی دنوں تک پیدل سفر کیا جاتا ہے جن کیلئے کھانے پینے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہوتا جبکہ سمندری راستوں میں ناکارہ اور چھوٹی سی کشتی میں بڑی تعداد میں لوگوں کو سوار کیا جاتا ہے جس سے اکثر لوگ راستے میں ہی گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ ترکی سے ہوتے ہوئے یونان تک شدید سردی کی وجہ سے بھی لوگ مر جاتے ہیں، یہ راستہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے ایران کی سرحد پر سخت سیکورٹی کا انتظام کیا گیا ہے اور جو غیرقانونی طریقے سے داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو ایرانی سیکورٹی حکام اُن کو مار دیتے ہیں۔جبکہ دوسرا طریقہ پاکستان سے مختلف ممالک کیلئے ویزٹ ویزہ لے کر پھر وہاں سے غیرقانونی طریقے سے یورپ کی طرف سفر کیا جاتا ہے، اس طریقے میں ہوائی جہاز کے ذریعے لوگ دبئی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور پھر وہاں سے سمندری راستوں کے ذریعے غیرقانونی طریقے سے بیرون ممالک جاتے ہیں، یہ راستے بھی جان لیوا ہوتے ہیں۔

جرمنی ایک ٹریننگ کے سلسلے میں جانے اور اب وہاں پر پناہ لینے والے صحافی انور شاہ کا کہنا ہے کہ جرمنی سمیت یورپ میں غیرقانونی طریقے سے آنے والے لوگوں کیلئے پہلے کی نسبت موجودہ وقت میں قوانین سخت بنائے گئے ہیں جبکہ روزگار کے مواقع کم ہیں اور جرمن پاسپورٹ حاصل میں سالوں سال لگ جاتے ہیں۔

انور شاہ نے سویڈن اور جرمنی میں ان لوگوں کے ساتھ بھی زندگی گزاری ہے جو غیرقانونی طریقے سے وہاں تک پہنچے ہیں، انہوں نے کہا کہ یورپ آنے کیلئے مہینوں تک سخت اور مشکل راستوں کو طے کرنا پڑتا پڑتا ہے جس میں کامیاب ہونے کے چانس بہت کم ہوتے ہیں جبکہ کامیاب ہونے ولے افراد ذہنی مریض بن جاتے ہیں جن کا یہاں پر رہنا مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان راستوں میں اکثر دوست تکلیف کی وجہ سے دم توڑ جاتے ہیں جو ان لوگوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا ہے اور جسے پھر ان کیلئے بھولنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button