خواتین کیلئے مختص فنڈز: دعوے، نعرے اور حقیقت
محمد فہیم
بجٹ پیش کرتے وقت ہر کسی کی توجہ بجٹ کے اعدادوشمار پر ہوتی ہے، یہ خصوصی طور پر رپورٹ کیا جاتا ہے کہ آئندہ برس کا بجٹ کتنا ہو گا اور کس کس مد میں یہ رقم خرچ کی جائے گی تاہم اس وقت گزشتہ برس پر کوئی نظر نہیں رکھی جاتی اور اسی ایک برس میں حکومت من پسند منصوبوں کو مختص رقم سے زیادہ اور دیگر منصوبوں کی مختص رقم سے کٹوتی کر دیتی ہے۔
اگر خیبر پختونخوا حکومت کے ترقیاتی فنڈز کا جائزہ لیا جائے تو خواتین کیلئے مختص ترقیاتی بجٹ میں 5 سالوں کے دوران مختص رقم کا 20 فیصد سے زائد خرچ ہی نہیں کیا گیا۔ مالی سال 17-2016 سے لے کر مالی سال 21-2020 تک 5 سالوں کے دوران 42 ارب 70 کروڑ 30 لاکھ روپے مختص کئے گئے جن میں کمی کرتے ہوئے انہیں 33 ارب 95 کروڑ 70 لاکھ روپے کر دیا گیا۔
آکس فیم اور فیمنسٹ فرائیڈے کے اشتراک سے تیار کی جانے والی تحقیقی رپورٹ میں وفاقی اور چاروں صوبوں کے بجٹ کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں خواتین کیلئے مختص ترقیاتی فنڈز اور ان کے استعمال پر رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 17-2016 میں صوبائی حکومت نے خواتین سے متعلق 64 ترقیاتی منصوبوں کیلئے7 ارب 18 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کیے تھے اور مالی سال کے اختتام تک اس میں اضافہ کرتے ہوئے 7 ارب 53 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ کئے گئے، مالی سال 18-2017 میں صوبائی حکومت نے 59 ترقیاتی منصوبوں کیلئے 5 ارب 55 کروڑ روپے مختص کئے تھے تاہم سال کے اختتام تک اس میں 46 فیصد کٹوتی کرتے ہوئے 2 ارب 95 کروڑ 20 لاکھ روپے ہی خرچ کئے جا سکے۔
تحقیق کے مطابق مالی سال 19-2018 میں صوبائی حکومت نے 51 ترقیاتی منصوبوں کیلئے 8 ارب 8 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کئے تھے تاہم سال کے اختتام تک 7 ارب 90 لاکھ روپے ہی خرچ کر سکی۔
اسی طرح مالی سال 20-2019 میں صوبائی حکومت نے خواتین کے مخصوص 90 ترقیاتی منصوبوں کیلئے 12 ارب 15 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کئے تھے تاہم سال کے اختتام تک 22 فیصد سے بھی زائد کی کٹوتی کرتے ہوئے 9 ارب 49 کروڑ 80 لاکھ روپے استعمال کئے جا سکے۔ مالی سال 21-2020 میں صوبائی حکومت نے 71 خواتین کے مخصوص ترقیاتی منصوبوں کیلئے 9 ارب 73 کروڑ 10 لاکھ روپے مختص کئے تھے تاہم سال کے اختتام تک 6 ارب 96 کروڑ 10 لاکھ روپے ہی خرچ کئے جا سکے۔
فیمنسٹ فرائیڈے کی رکن اور سماجی کارکن طاہرہ کلیم اس حوالے سے کہتی ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے اگر دیکھا جائے تو حکومت اور تمام مکتبہ فکر کی توجہ صرف اور صرف آئندہ سال کے بجٹ پر ہوتی ہے جس میں بڑے بڑے نعرے اور دعوے ہوتے ہیں لیکن آکس فیم اور فیمنسٹ فرائیڈے نے اس بار سال کے اختتام پر ان وعدوں کی تکمیل کا جائزہ لیا ہے جو مستقبل میں پالیسی سازوں کیلئے ایک اشارہ ہے۔
طاہرہ کلیم کہتی ہیں کہ غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے بالخصوص اور سماجی اداروں کی جانب سے بالعموم حکومت پر بجٹ کی تیاری کے وقت ایک دباﺅ ڈالا جاتا ہے اور اسی دباﺅ میں آ کر حکومت بجٹ مختص کر دیتی ہے لیکن سال گزرنے کے بعد اس مختص بجٹ میں خرچ کتنا ہوتا ہے اس کو کوئی نہیں دیکھتا، غیرقانونی طور پر اس بجٹ کو دیگر پراجیکٹ کو منتقل کر دیا جاتا ہے اور ایوان کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت، پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان نے مجموعی طور پر ان 5 سالوں کے دوران خواتین کیلئے مختص ترقیاتی بجٹ سے 33 ارب 21 کروڑ روپے سے زائد کی کٹوتی کی ہے، سب سے زیادہ فرق وفاقی حکومت کی جانب سے مختص اور خرچ رقم میں ریکارڈ کیا گیا ہے جو 14 ارب 4 کروڑ روپے سے زائد ہے، خیبر پختونخوا اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جس نے ان 5 سالوں میں مختص ترقیاتی بجٹ سے 8 ارب 74 کروڑ 40 لاکھ روپے کی کٹوتی کی ہے، سندھ حکومت نے 4 ارب 7 کروڑ 50 لاکھ روپے کی کٹوتی کی ہے جبکہ پنجاب نے 3 ارب 86 کروڑ 92 لاکھ اور بلوچستان حکومت نے 2 ارب 48 کروڑ 5 لاکھ روپے مختص بجٹ سے کٹوتی کی ہے۔
سینئر صحافی اور سیکرٹریٹ رپورٹنگ کرنے والے عزیز بونیری کہتے ہیں کہ حکومت کے مختص اور خرچ رقم میں ہمیشہ تضاد ہوتا ہے، صوبائی حکومت کا بجٹ صنفی بنیاد پر صرف مختص کرنے کی حد تک ہی محدود ہے اگر دیکھا جائے تو مردوں کیلئے بھی مختلف مدات میں رقم مختص کی جاتی ہے جن میں لڑکوں کے سکول، سکالرشپس، کاروبار اور دیگر مدات میں قرضے شامل ہیں اور ان میں اکثر و بیشتر اضافہ ہوتا ہے۔
عزیز بونیری کے مطابق خواتین سمیت دیگر محروم طبقات جن میں جسمانی معذور افراد اور مذہبی اقلیتیں بھی شامل ہیں ان کے بجٹ کبھی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتے، اگر دیکھا جائے تو ایک اور صنف یعنی خواجہ سراﺅں کیلئے تو بجٹ میں ایک پائی تک نہیں رکھی گئی، حکومت کو سریا، سیمنٹ اور بجری میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، وہ جلد از جلد سڑکیں بنانے، گلیاں پکی کرنے اور اسی طرح سیاسی نعروں سے بھرپور ترقیاتی منصوبوں پر کام کرتی ہے۔