لائف سٹائلکالم

ارشد شریف: ایسے کب تک اور آخر کب تک؟

محمد سہیل مونس

سمجھ میں نہیں آ رہا کہ بات کہاں سے شروع کروں، ارشد شریف کے قتل کی ناگہانی خبر سے، ان کی ماں کے چھلکتے ہوئے آنسوؤں سے یا پھر اس خون آلود گاڑی کی نشست سے جو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی۔

ارشد شریف کی موت کی خبر سن کر نہایت ہی افسوس ہوا جبکہ اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہوا کہ انسان کی جان لینا کتنا آسان ہو گیا ہے، ایک ہنستا مسکراتا چہرا یوں ہی خاک کر دیا جائے گا۔ ہم یعنی آج کا انسان کچھ زیادہ ہی حدیں پار نہیں کر رہا کہ جو مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں اسے گالم گلوچ اور پھر ماردھاڑ تک لے چلتے ہیں، نہ کوئی خوف خدا ہے اور نہ ترس نام کی کوئی شے، پتہ نہیں کہ انسانیت کو ہو کیا گیا ہے۔

ہم بذات خود پختون تو جنازے اٹھانے، زخمیوں کو ایمبولنسز میں بھرنے، کٹے پھٹے انسانی اعضاء کو اکٹھا کرنے کے عادی ہو چکے ہیں لیکن کسی ذی روح تک کو اس طرح کی دہشت اور بربریت کا نشانہ بنتے نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے لونی کی اولاد اور اہل خانہ کی بے بسی دیکھی، ہم نے علی وزیر کے گھر کے 18 لوگوں کی شہادت بھی دیکھی، ہم نے اے پی ایس کے بچوں کی خون آلود لاشے بھی دیکھے لیکن ارشد شریف جیسے شخص کا بھی یہ حشر ہو گا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

اس سانحہ کے درپردہ محرکات تو سامنے آ ہی جائیں گے لیکن ارشد شریف اب واپس کبھی نہیں آئے گا، ان کے قتل کا کیس بھی ان درجنوں صحافیوں کے کیس جیسا داخل دفتر کر دیا جائے گا جو حق سچ بات کے لئے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئے۔ ویسے کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ یہ قدرت بھی برائی کو کتنا ڈھیل دے دیتی ہے جب تک اچھائی سنبھلتی ہے تب تک اس کی ہڈی پسلی ایک کر کے رکھ دی گئی ہوتی ہے۔

ہم اگر اس دور پر غور کریں تو ہمیں سچائی کی جانب پوری انسانیت میں کچھ ہی لوگ نظر آئیں گے باقی کی تمام انسانیت دوغلے پن اور منفی ہتھکنڈوں میں مگن دکھائی دے گی۔ اب اگر قدرت نہیں چاہتی کہ سچ کا بول بالا ہو تو ہم کون ہوتے ہیں سچ کے ٹھیکیدار، اگر دنیا ختم ہونے واسطے ہی بنی ہے تو سو بسم اللہ ختم ہی کر دی جائے ویسے ہم کون سے یہاں صدیاں بتانے آئے ہیں لیکن پھر سر جھنجھوڑ کر سوچتا ہوں کہ سچ اور جھوٹ کے بیچ ٹاکرا نہ ہوتا تو پھر کھیل کا مزہ ہی کیا آتا۔

ویسے زندگی کے اس کھیل کو کھیلتے کھیلتے انسان اکثر اس بات پر بھی آپے سے باہر ہو جاتا ہے کہ ایمانداری سے کام لوں تب بھی لوگ ناخوش، بے ایمانی کی روش اختیار کروں تو پھر بھی تنقید کی زد میں آؤں تو آخر جاؤں کہاں! اس دور میں کسی بھی بھلے مانس کو کوئی جینے نہیں دیتا۔

حسب معمول یہ سانحہ چند ہی روز میں قصہ پارینہ بن جائے گا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانی معاشرے کو جنگل میں بدلتے کون سے لوگ ہوں گے جو برداشت کریں گے، منفی طاقتوں سے نمٹنے کے لئے مثبت قوتوں کو بہرصورت کھڑا ہونا ہو گا۔ ہم نے اگر پاکستان کو سچ میں ایک فلاحی ورفاحی ملک بنانا ہے تو ان طاغوتی قوتوں کے سامنے سیسہ پھیلائی دیوار بننا ہو گا جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے پہ تلی ہوئی ہیں، ہمیں آنے والی نسلوں کے لئے اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانا ہو گا۔

ہمارے ہاں عدم برداشت کا سلسلہ روز بہ روز بڑھتا چلا جا رہا ہے، ہم ذرا ذرا سی باتوں پر مارنے مرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم کسی سے نظریاتی یا فکری اختلاف تو رکھ سکتے ہیں لیکن مہذب معاشروں میں یہ بات کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے کہ بات بے بات کسی کی عزت نفس مجروح کی جائے یا اس پر بے بنیاد قسم کے الزامات کی اتنی بوچھاڑ کی جائے کہ وہ بچارا منہ چھپاتا پھرے یا پھر حق و سچ بات کا ساتھ دینا بھی چھوڑ دے۔

ہمارے ہاں اس حالیہ سانحہ کے بعد اکثر افراد کے دلوں میں یہ بات گھر کر گئی ہو گی کہ پاکستان ایک شہر ناپرساں کی مانند ہے بس کچھ بھی مت بولو جو ہے اور جس طرح ہے چلنے دو لیکن یہ سوچ قطعاً غلط ہے کیونکہ جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے چاہے جتنا بھی پھیل جائے لیکن سچ کی ہلکی سی چنگاری اس کو لمحوں میں بھسم کر دیتی ہے۔

اس واقعہ کے بعد ایک بات یہ بھی واضح ہوا چاہتی ہے کہ پاکستان کے اندر صحافی بالکل بھی محفوظ نہیں جبکہ دنیا میں سیاسی پناہ لینے واسطے کبھی بھی افریقی اور دیگر کئی ایک ممالک بھی خطرے سے خالی نہیں چاہے وہ کینیڈا یا پھر دبئی ہی کیوں نہ ہو۔

ارشد شریف کے قتل میں کچھ لوگ بین الاقوامی مافیا کا ذکر بھی کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں سیاسی افراتفری کے لئے بھی اس طرح کے واقعات کو بڑھاوا دینے والے عناصر موجود ہیں، اسی طرح بھارت جیسے عیار دشمن جو ہر وقت جلتی پہ تیل کا سبب ڈھونڈ نکالتے ہیں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب خدا کرے کہ ارشد شریف والے واقعے کے اصل حقائق منظر عام پر آئیں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن اگر اس میں مقدس گائے ملوث پائی گئی تو حالات نہایت سنگین ہو جائیں گے۔

اب ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا پڑے گا تاکہ ہم اپنی غلطیوں کا ازالہ کر کے آگے جانے کی پوزیشن میں آ سکیں ورنہ حالات جوں کے توں رہے تو نہ یہ ملک باقی رہے گا اور نہ یہ چونچلے، اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ: کالم نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button