قبائلی عوام بجلی کے بل ادا کرنے کیلئے تیار، مگر ان کی شرائط کیا ہیں؟
اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے زیر اہتمام کیے جانے والے ایک مطالعے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی علاقوں کے عوام کی اکثریت اسی صورت میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے تیار ہیں اگر بجلی تسلسل کے ساتھ فراہم ہو، لوڈشیڈنگ کے اوقات محدود اور ایک طے شدہ نظام الاوقات کے تحت ہوں۔
امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی مالی معاونت سے یہ مطالعہ یو این ڈی پی کے مرجڈ ایریاز گورننس پراجیکٹ (ایم اے جی پی) کی تکنیکی مدد کے ساتھ انجام دیا گیا جو کہ ضم شدہ علاقوں میں بجلی تک رسائی میں اضافے کیلئے ترتیب دیے گئے خیبر پختونخوا حکومت کے ‘سپیشل امفاسز پروگرام’ کا حصہ ہے۔ اس مطالعے کا مقصد ضم شدہ علاقوں کی آبادی میں مسلسل دستیابی کے عوض بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے رضامندی کا جائزہ لینا تھا، اس وقت ان علاقوں میں پورے دن میں اوسطاً چار گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔
اس مطالعے کے نتائج کا اجراء اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں کیا گیا، جہاں ماہرین نے اس مطالعے کے نتائج کی روشنی میں مختلف اختراعات اور حل پیش کئے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یو ایس ایڈ خیبر پختونخوا کے قائم مقام ڈائریکٹر ریچل گرانٹ نے کہا کہ امریکی حکومت کیلئے توانائی کے شعبے میں حکومت پاکستان کے ساتھ قائم کردہ شراکت باعث فخر ہے، ”اس ضمن میں ہم خیبر پختونخوا حکومت اور دوسرے ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ بھرپور معاونت کیلئے آمادہ ہیں تاکہ بجلی کے بحران سے نمٹا جا سکے۔”
اس مطالعے میں شامل اٹھاسی فیصد (٪88) افراد کی بجلی کے نظام تک رسائی موجود تھی لیکن انہیں بجلی دستیاب نہیں تھی، یہ بات بھی سامنے آئی کہ بجلی کے نظام تک رسائی کے باوجود بلنگ کا باقاعدہ کوئی نظام موجود نہیں تھا۔
واضح رہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے ان علاقوں کی آبادی کیلئے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے حاصل استثنیٰ اگلے سال ختم ہو رہا ہے۔
اس مطالعے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ لوگوں کی اکثریت ایسے منصوبوں کے حق میں ہے جن میں دیہاتوں کی سطح پر شمسی توانائی کیلئے سولر پینلز کی تنصیب عمل میں لائی جائے، جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ شمسی توانائی کا استعمال اخراجات اور توانائی کی بچت میں معاون ہے۔
یو این ڈی پی پاکستان کے ریزیڈنٹ ریپریزنٹیٹیو قنوط اوسبی نے کہا کہ یو این ڈی پی کے مطالعے کے نتائج ضم شدہ علاقوں میں بجلی کی فراہمی کے حوالے سے نہ صرف پائیدار حل تجویز کرتے ہیں بلکہ ترقی کے عمل میں پیچھے رہ جانے والے طبقات کو مرکزی دھارے سے منسلک کرنے کی راہ بھی دکھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تجویز کردہ نظام نہ صرف قابل بھروسہ ہے بلکہ اخراجات گھٹانے میں بھی مدد گار ہے۔
ضم شدہ علاقوں کی ترقی کیلئے خصوصی طور پر تشکیل دیے گئے ایکسلی ریٹڈ امپلی منٹیشن پروگرام (اے آئی پی) کے تحت خرچ کردہ ہر روپیہ لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے خیبر پختونخوا حکومت کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا شہاب علی شاہ نے کہا ”ان علاقوں میں شمسی توانائی تک رسائی روایتی گرڈ سپلائی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے، یہ بات مستقبل میں مختلف مسائل کے حل کیلئے منصوبہ بندی کے دوران ہمارے طرز فکر میں نئے رجحانات بروئے کار لانے کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے۔”