پہلی جنگ عظیم اور تیراہ کے دو آفریدی بھائیوں کی انوکھی داستان
زبیر آفریدی
وادی تیرہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ایک سرسبز و شاداب اور جنت نظیر وادی ہے۔ یہاں پر رہنے والے قبائل بالعموم آفریدی ہیں۔ افغان مورخین نے آفریدی قوم کو قیس عبدالرشید کے بیٹے غورغشت کی اولاد ظاہر کیا ہے۔
ویسے تو آفریدی قوم کی تاریخ شجاعت اور بہادری کی داستانوں سے بھری پڑی ہے لیکن آفریدی قوم کے قمبرخیل قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کی انوکھی داستان ایسی ہے جس کی مثال شائد ہی دنیا میں کہیں پر ملے۔ ان دونوں بھائیوں نے جنگ عظیم اول کے دوران دنیا کے دو مخالف سپر پاور کی طرف سے لڑ کر سب سے بڑے فوجی اعزازات اپنے سینوں پر سجائے تھے۔
ان دونوں بھائیوں کے نام میردست آفریدی اور میرمست آفریدی تھے۔ ان کے والد کا نام محمد امیر خان تھا۔ یہ دونوں بھائی وادی تیرہ میدان کے خرکے نامی علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ میردست کی پیدائش 1874 جب کے میرمست کی پیدائش 1876 میں ہوئی تھی۔ دونوں نے اپنی ابتدائی تعلیم وادی تیرہ میں بھوٹان شریف کے مدرسے سے حاصل کی تھی۔
میردست آفریدی نے 1894 جب کے میرمست آفریدی نے 1898 میں برٹش انڈین آرمی جائن کی تھی۔ جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو میردست آفریدی اس وقت 55 coke rifle میں بطور جمعدار اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ جنگ کے دوران 55 coke rifle ہندوستان ہی میں رہی لیکن 55 coke rifle سے 330 سپاہی 40 نان کمیشنڈ آفیسرز اور آٹھ آفیسر 57th Wilde’s Rifles میں بطور کمک شامل کئے گئے جن میں سے ایک جمعدار میردست بھی تھے۔
میردست فرانس بھیجے گئے جہاں پر انہوں نے فرانس اور بیلجئم کے بارڈر پر ایپرس کے مقام پر لڑی جانے والی تاریخی لڑائی میں حصہ لیا۔
22 اپریل 1915 کو جرمن فوج نے کلورین گیس کا استعمال کیا برطانوی فوج کے پاس گیس سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں تھا جس کی وجہ سے ہزاروں انگریز فوجی ہلاک اور بے ہوش ہو گئے۔ برطانوی فوج کیلئے جنگ جاری رکھنا اور زخمیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا انتہائی مشکل تھا۔ شام کے وقت جب گیس کے اثرات کم ہو گئے تو زخمی میردست نے بچ جانے والی فوج کو اکٹھا کر کے کمان اپنے ہاتھ میں لی اور زخمیوں کو بچانے کی مہم شروع کی۔ آپ اس وقت ایک بار پھر زخمی ہوئے لیکن آپ نے بے مثال بہادری کا ثبوت اس وقت دیا جب آپ نے گولہ باری کے دورن آٹھ زخمی انگریز اور ہندوستانی فوجیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔ اس بہادری کے صلے میں برطانوی بادشاہ جارج ویلیم پنجم نے رائل پویلین ہسپتال لندن میں میردست کے سینے پر سب سے بڑا فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس سجا دیا۔
یاد رہے اس سے پہلے انڈین فوجیوں کیلئے سب سے بڑا فوجی اعزاز انڈین آرڈر آف میرٹ تھا جو کہ اس سے پہلے 1909 میں میردست کے سینے پر سجا دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو خان بہادر کا خطاب بھی ملا۔ خراب صحت کی وجہ سے میردست آفریدی فوج سے ریٹائرڈ ہوئے اور باقی زندگی قوم کی خدمت کیلئے وقف کر دی۔
اپنے بڑے بھائی میردست آفریدی کی طرح میرمست آفریدی کو بھی فرانس بھیجا گیا۔ آپ اس وقت 58 Vaughan’s Rifles میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ میرمست آفریدی نے نیف شپیل کے محاذ پر جرمن فوج کا بہادری سے مقابلہ کیا لیکن اچانک 4 مارچ 1915 کی یخ بستہ رات کے اندھیرے میں صبح کا اجالا پھیلنے سے پہلے برطانوی کمانڈر کو ایک بری خبر ملی کہ 23 آفریدی سپاہی اپنی بندوقوں سمیت غائب ہو چکے ہیں۔ یہ سپاہی میرمست کی سربراہی میں جرمن فوج سے جا ملے تھے۔
چونکہ جنگ عظیم اول میں جرمنی اور ترکی اتحادی تھے؛ میرمست کا کہنا تھا کہ جب ترکی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو میں یہ برداشت نہ ک رسکا کہ انگریزوں کیلئے اپنے مسلمان ترک بھائیوں کے خلاف لڑوں۔ اس کے بعد میرمست اور ان کے ساتھی ٹرین کے ذریعے مقبوضہ فرانسیسی علاقے للی سے جرمنی پہنچائے گئے۔
اس فیصلے کی وجہ سے جرمن بادشاہ ویلیم قائضر نے 24 اپریل 1915 کو میرمست آفریدی کے سینے پر جرمنی کا سب سے بڑا فوجی اعزاز آئرن کراس سجا دیا۔ اس کے بعد میرمست آفریدی ترکی چلے گئے جہاں پر آپ کی ملاقات خلافت عثمانیہ کے مفتی اعظم سے ہوئی۔ آپ کو مجاہد ملت کا خطاب اور ایک اسلامی جھنڈا بھی ملا۔ اس کے بعد میرمست آفریدی کو ترکی کا خصوصی نمائندہ بنا کر ایک وفد کے ساتھ افغانسان بھیجا گیا جہاں پر آپ کا مقصد افغان حکومت کو فرنگیوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا تھا۔ ترک اور جرمن آفیسرز پر مشتمل یہ مہم ناکام رہی۔ لیکن مئی 1916 میں قابل سے تیراہ روانگی سے قبل میرمست آفریدی نے افغان شہزادہ نصرالله خان سے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے تحت میرمست نے تیراہ میں انگریز کے خلاف ایک لشکر تیار کرنا تھا جب کے شہزادہ نصرالله خان نے اس کیلئے مالی مدد کا وعدہ کیا۔ جب میر مست آفریدی تیراہ پہنچے اور اپنی سرگرمیاں شروع کیں تو جلد ہی انگریز حکومت حرکت میں آئی۔ کمشنر حاج روس کیپل نے اپنا مراعات یافتہ طبقہ بھیج کر میرمست اور ان کے اہلکاروں کے گھر جلا دیئے۔ میرمست آفریدی زیادہ عرصے تک زندہ نہیں رہے اور 1917 میں عالمی وباء سپینش فلو کی وجہ سے وفات پا گئے۔
ان دوبوں بھائیوں کی تیسری اور چوتھی نسل آج بھی پشاور کے نواحی علاقے شگئی ہندکیان میں آباد ہے۔ میردست آفریدی کی اولاد میں پیدا ہونے والے تاریخ کے طالب علم عالمگیر آفریدی نے ان دونوں کی دستاویزات آج بھی محفوظ رکھی ہیں۔