صحت

برص: ”لوگوں کے تلخ رویوں نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ کوئی چھوٹی بیماری نہیں”

رانی عندلیب

برص جِلد کی بیماری ہے جس میں جسم کے مختلف حصوں پر سفید داغ دھبے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری میں انسان کی جِلد چھوٹے چھوٹے سفید قسم کے داغ دھبوں سے بھر جاتا ہے۔ ہر انسان میں برص کی علامات مختلف ہوتی ہیں۔

پشاور کی نسرین جبین جو کہ صحافت کے شعبے سے پچھلے بیس برس سے وابستہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پانچ برس پہلے ان کے پاؤں پر ایک سفید داغ سا نکل آیا جو خارش کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ وہ نشان پھیلتا گیا اور پھر چند ماہ میں ان کے ہاتھ پاؤں سفید داغوں سے بھر گئے۔

شروع میں نسرین نے ان نشانوں کا علاج نہیں کروایا، وہ اس چکر میں تھیں کہ کوئی اچھا سا ڈاکٹر ملے گا تب ہی وہ اپنا علاج کروائیں گی۔ اس طرح آج کل، اور ڈاکٹر کی تلاش میں ان کی یہ بیماری بڑھتی چلی گئی۔ علاوہ ازیں نسرین جبین نے بذات خود نشانوں کی اتنی پروا بھی نہیں کی کہ چلو یہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

وہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں کہ ان چار پانچ برسوں میں ان کے ہاتھ پاؤں حتی کہ ان کے پورے جسم پر نشان پھیلنا شروع ہو گئے لیکن ان کا چہرہ نشانوں سے بچا ہوا ہے، انہوں نے اپنا علاج ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے کروایا۔

نسرین جبین کے مطابق انہیں بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا ان دھبوں سے نہ ہی ان کے شوہر نے کبھی کوئی طعنہ دیا یا طنز کیا لیکن معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے تلخ رویوں نے انہیں سوچنے پر مجبور کیا کہ نہیں، یہ کوئی چھوٹی بیماری نہیں ہے، ”کیونکہ یہ داغ جتنے بھی لوگوں نے میرے ہاتھ اور پاؤں پے دیکھے سب سے پہلے یہی سوال کیا، ہائے ہائے۔۔۔ یہ کیوں؟ یہ کس طرح، یہ کس چیز سے؟ میں دل میں سوچتی ایسے پوچھ رہی ہے جیسے یہ مجھے پتہ ہو۔”

انہوں نے بتایا کہ لوگ انہیں طرح طرح کے مشورے دیتے، کوئی ڈاکٹر تو کوئی حکیم کے پاس جانے کا کہتا تو کوئی دم کرانے والی عورتوں یا مردں کے پاس جانے کا، ”ہاں میں نے دم کروایا تھا کیونکہ بعض عورتوں نے مشورہ دیا تھا کہ برص دم سے بھی ٹھیک ہوتا ہے۔”

نسرین کے مطابق وہ ایک مسلمان خاتون ہیں اور اللہ پر پختہ ایمان بھی رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اللہ کے کلام میں بہت بڑی برکت ہے لہذا دم بھی کروایا اور اور ڈاکٹر سے علاج بھی کروایا لیکن نسرین ان تمام تکالیف سے گزرتی ہیں جو برص بیماری میں ہوتی ہیں جیسے خارش ہونا یا اس متاثرہ جگہ سے گندا پانی نکلنا، تیز دھوپ میں نہ جانا، گرمی کی شدت اور گرمی کی وجہ سے کچن میں تکلیف ہونا کیوں کہ برص سے متاثرہ بندہ دھوپ میں بھی نہیں نکل سکتا، ”چند ماہ پہلے پشاور کے ایک ہوموپیتھک ڈاکٹر سے تین مہینوں کا علاج شروع کیا لیکن جب دو مہینے گزر گئے تو تیسرے مہینے میں ہی علاج کرنا چھوڑ دیا کیونکہ وہ انتہائی سخت علاج تھا شاید اس لیے یہ نشان ریکور نہیں ہو پائے، اس کے بعد علاج پشاور کے ہمدرد فاؤنڈیشن سے کروانا شروع کیا، ان کی دوائی بہت ہی زبردست قسم کی تھی، پاؤں ہاتھ پر جو سفید نشان تھے وہ صحیح ہونا شروع ہو گئے لیکن ان دوائیوں میں ایک سیرپ بھی تھا جو پانی میں ملا کر پینا پڑتا تھا اس سیرپ کی وجہ سے خواتین سے متعلق ایک مسئلہ درپیش آ گیا جس کے باعث وہ علاج بھی چھوڑ دیا۔”

وہ کہتی ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا لوگ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ علاج تو کرتے ہیں لیکن علاج کرنے کے باوجود بھی لوگ نفسیاتی بیمار ہو جاتے ہیں اور یہ نفسیاتی بیماری بھی عام لوگوں کی وجہ سے اس انسان میں پیدا ہو جاتی ہے، ”میں تو اس بیماری کی پرواہ نہیں کرتی اس لیے ابھی تک نفسیاتی بیمار نہیں بنی لیکن عوام کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ جس بندے میں کوئی لاعلاج بیماری پائی جاتی ہو جو کہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے اگر آپ لوگ متاثرہ بندے کی عیادت نہیں کر سکتے یا ہمدردی نہیں کر سکتے تو اس کے زخموں پہ نمک بھی نہ چھڑکیں تاکہ وہ نفسیاتی مریض نہ بنے کیونکہ یہ کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جو کہ ایک بندے سے دوسرے بندے کو لگتی ہے، یہ تو انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس وجہ سے یہ بیماری انسان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے، کوئی بھی لڑکی یا خاتون نہیں چاہے گی کہ اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ متاثر ہو جائے، یہ سب اللہ تعالی کی مرضی سے ہوتا ہے۔”

اس حوالے سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ماہر امرض جلد ڈاکٹر محمد زبیر بھٹی کا کہنا ہے کہ جسم پر مختلف قسم کے داغ نکلتے ہیں، ہر سفید نشان یا داغ برص بیماری والا نہیں ہوتا لیکن جسم پر جیسے ہی داغ نکلنا شروع ہو جائیں تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ اس میں بعض ایسے نشان ہوتے ہیں یا داغ جو کہ بہت ہی خطرناک قسم کے ہوتے ہیں جیسے کہ برص بیماری والا کیونکہ برص ایک لاعلاج مرض ہے۔

برص بیماری کی وجوہات زیادہ ہیں، سب سے بڑی وجہ آٹو امیون ڈزیز کی وجہ سے جو اینٹی باڈیز بنتے ہیں، ذہنی دباؤ کی وجہ سے اور ڈپریشن کی وجہ سے یہ بیماری پھیلتی ہے لیکن یہ بیماری ایک بندے سے دوسرے بندے کو نہیں لگتی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بیماری میاں بیوی کو ایک دوسرے میں منتقل ہوتی ہے اور بچوں کو چھونے سے یا ساتھ کھانا کھانے سے لیکن یہ باتیں غلط ہیں۔

ڈاکٹر زبیر بھٹی کا مزید کہنا ہے کہ برص بیماری کا علاج تو عارضی طور پر ہو سکتا ہے لیکن یہ لاعلاج بیماری ہے، کئی طریقوں سے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن فی الحال مکمل طور پر برص بیماری کو علاج کے زریعے ختم نہیں کیا جا سکا، میڈیکل اور سائنس کے ذریعے برص بیماری کا اب تک جو علاج ہو رہا ہے؛ انجکشن لگانے سے، میڈیسن سے جبکہ لیزر ٹریٹمنٹ سے بھی برص کا جو علاج ہو رہا ہے، اس کو عارضی علاج کہہ سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button