لائف سٹائل

سیلاب: خیشگی کیمپ کی افغان خواتین کس حال میں ہیں؟

عارف حیات

بہادر خان نے رجسٹر میں تمام متاثرہ افراد کے مکمل کوائف لکھے ہیں، جو بھی خیشگی کیمپ کا دورہ کرتا ہے تو بہادر خان رجسٹر نکال کر فریاد شروع کر دیتے ہیں۔

نوشہرہ میں واقع خیشگی افغان پناہ گزین کیمپ کے رہائشی آج کل گھروں کے ملبے سے لکڑیاں اور بچا کُھچا سامان نکالنے میں مصروف ہیں۔

ملک میں سیلابی صورتحال کے بعد ہر طرف سے افسوسناک خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں تو متاثرہ افراد اپنی فریاد پہنچاتے اور کہیں نہ کہیں سے ان کی طرف امداد روانہ کر دی جاتی ہے لیکن ان سب حالات میں خیشگی کیمپ کے رہائشی افغان باشندوں کی فریاد کسی نے تاحال نہیں سُنی۔

خیشکی کیمپ ڈھائی سو گھروں پر مشتمل ہے جن میں سے پچپن (55) گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں، ”ایک ایک گھر میں تین سے پانچ خاندان رہائش پذیر ہیں۔” بہادر خان نے ٹی این این کو بتایا۔

اقوام متحدہ کی تنظیم برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے خیشگی کیمپ کے متاثرہ افغانوں کو ٹینٹ فراہم کیے ہیں۔
بہادر خان نے بتایا کہ متاثرین ٹینٹ میں گرمی کی شدت برداشت کرنے سے قاصر ہیں، ”کیمپ میں پینے کا صاف پانی اور سولر بجلی کی اشد ضرورت ہے، خیشگی کیمپ میں زیادہ تر مکانات مکمل تباہ ہو گئے ہیں جن کی دوبارہ تعمیر کے لئے رقم بھی درکار ہے۔”

ٹینٹوں میں رہائش پذیر متاثرین نے بتایا کہ دن کو گرمی کے باعث باہر درختوں کے سائے میں وقت گزارتے ہیں، جبکہ رات زہریلے مچھروں اور کیڑوں کا ڈر لگا ہوتا ہے، بچوں میں خارش اور بخار کی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔

دوسری طرف کیمپ میں رہائش پذیر خواتین بھی سیلاب سے متاثر ہوئیں ہیں۔ افغانی خاتون نائلہ نے بتایا کہ سیلاب ہماری جھونپڑیاں بہا لے گیا ہے، بیٹیوں کی شادی کے لئے جمع کیا ہوا سامان بھی سیلابی پانی نے متاثر کر دیا جبکہ کچھ سامان تو مکمل تباہ ہو گیا ہے۔

”درختوں کے سائے میں دن اور کھلے آسمان تلے رات گُزار رہے ہیں۔”، نائیلہ نے آبدیدہ ہو کر بتایا۔

نائلہ کے مطابق بچے بھوکے ہیں، راشن یا تو ملتا نہیں یا بہت کم مل رہا ہے، پانچ دن سے کھانا قریبی گھروں والوں سے مانگ رہے ہیں، تاحال کوئی پوچھنے نہیں آیا، خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نائلہ نے بتایا کہ دو دنوں سے راشن نہیں ملا، ”شام ہوتے ہی قریبی گھروں سے کھانا مانگ کر لے جاتی ہوں۔”

نوشہرہ کے خیشگی کیمپ کے رہائشی سیلاب سے تباہ شدہ مکانات کا ملبہ ہٹانے میں لگے ہیں جبکہ اعلی اداروں سے نئے اور پکے مکانات تعمیر کرانے کی آس لگا رکھی ہے۔

روشن خان نے تباہ شدہ مکان کے ملبہ میں گھریلو اشیاء ڈھونڈتے ہوئے بتایا کہ گھر میں چھ کمرے تھے، تین شادی شدہ بیٹے ان کے ساتھ گھر میں رہتے تھے، ”رات کو شور سُنا تو باہر نکلا اور تھوڑی ہی دیر میں پانی کا بڑا ریلہ گھر میں داخل ہوا، سامان چھوڑ دیا اور جان بچانے کی خاطر خود نکل گئے، اب گھر دوبارہ تعمیر کرنے کا غم کھائے جا رہا ہے، میں اور میرے بیٹے گذشتہ کئی دنوں سے کام پر نہیں گئے جس کے باعث خرچہ کی رقم بھی ختم ہونے والی ہے۔”

اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین خیبر پختونخوا کے نمائندہ قیصر آفریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ پورے ملک میں سیلاب سے متاثرہ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً چار لاکھ بیس ہزار ہے، متاثرہ افغان مہاجرین کو ٹینٹ، باورچی خانے کا سامان اور کھانے پینے کی اشیاء دی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button