پانی کی شدید قلت، جنوبی وزیرستان کے باغات اجڑ گئے
موسی کمال یوسفزے
ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات پاکستان میں واضح طور پر سامنے آ رہے ہیں اور اس موحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کے مختلف علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ان علاقوں میں خیبر پختونخوا کا قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان بھی شامل ہے جو آبی قلت کا شکار ہے۔
جنوبی وزیرستان وسیع پھلوں کے باغات اور سبزیوں کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے۔ جنوبی وزیرستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے بیشتر باغات اور کھیت متاثر ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء میں زراعت کے لئے استعمال ہونے والا 90 فیصد پانی زمین سے نکالا جاتا ہے، پاکستان میں دریاؤں کے بہت ذخائر موجود ہیں مگر اس کے باوجود بھی 70 فیصد پانی زراعت کے لئے زمین سے نکالا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جو زراعت کیلئے زمین سے پانی نکالتا ہے۔ اس رپورٹ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقہ وانا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وانا ایک زرعی علاقہ ہے جس کی زرخیز زمین پورے ضلع میں زراعت کے لئے مشہور ہے، جنوبی وزیرستان کا سب ڈیژن وانا سالانہ بنیادوں پر 64،500 ٹن سیب، 70 ہزار ٹن سبزیاں اور پہاڑوں سے 8،500 ٹن چلغوزے پیدا کرتا ہے، مگر موجودہ سیزن میں سیب کے باغات، سبزیاں اور گندم کی فصل آبی قلت کی وجہ سے بڑی پیمانے پر متاثر ہوئی ہے۔
اس حوالے سے جنوبی وزیرستان کے رہائشی عبدالرحیم نے بتایا، ”ہمارے سیب کے باغات ہیں ہر سال ہم ان باغات سے تقریباً 14 لاکھ روپے کے پھل مارکیٹ میں سپلائی کرتے تھے، ہمارا ذریعہ معاش بھی یہی باغات ہیں مگر اب پانی کی کمی کی وجہ سے یہ باغات متاثر ہوئے ہیں، مذکورہ باغات سے جتنا منافع ہوتا تھا اب نہیں ہو رہا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وزیرستان میں ایسے بہت سے باغات ہیں جو پانی کی قلت کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں، بعض باغات تو مکمل طور پر ختم ہو گئے ہیں، ”وزیرستان کو اللہ تعالی نے بہت سے قدرتی وسائل سے نوازا ہے، اگر حکومت یہاں پر چھوٹے ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کرے تو دیگر علاقوں کے لحاظ سے یہاں ڈیم بنانے پر لاگت بھی کم آئے گی کیونکہ یہاں قدرتی طور پر پہاڑوں سے ڈیم کی تین دیواریں مکمل ہوتی ہیں صرف ایک دیوار اور اس کے ساتھ منسلک کام کی ضرورت ہوتی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں ہر سال برف باری ہوتی ہے مگر یہاں پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی تاکہ پانے کو ضائِع ہونے سے بچایا جا سکے اور یہ پانی زمینداروں کے کام آ سکے، اس وقت وزیرستان میں زیر زمین پانی کی سطح تقریباً 600 فٹ تک نیچے چلی گئی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ سطح اور بھی نیچے جانے کا خدشہ ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی نور علی وزیر کافی عرصے سے وزیرستان میں آبی قلت پر کام کر رہے ہیں اور ابھی تک اس مسئلے پر کئی اسٹوریز فائل کر چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں زیادہ تر سیب کے باغات سوکھ گئے اور سبزیوں کی کاشت متاثر ہوئی، وزیرستان میں ایک علاقہ ہے جس کا نام شولام ہے ادھر تو پینے کا پانی بھی ختم ہو گیا ہے لوگ اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہیں، یہاں زیادہ لوگ بارش کے انتظار میں ہوتے ہیں تاکہ بارش کا پانی جمع کر کے اسے پینے کے لئے استعمال کر سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب بھی ہم نے ماہرین سے اس حوالے سے پوچھا تو انہوں نے یہاں پانی کی قلت کی کئی وجوہات بتائی ہیں جن میں سولر سیسٹم اور جنگلات کی کٹائی شامل ہیں، اس علاقے میں لوگوں نے زیادہ تر اپنے کھیتوں پر سولر سسٹم نصب کیا ہے اور اسی کے ذریعے وہ کنوؤں سے پانی نکالتے ہیں، سولر سسٹم تو سورج سے تونائی حاصل کرتا ہے اور ایک بار پیسے لگانے سے پھر اس پر خرچہ نہیں آتا اسی وجہ سے لوگ پانی کو بغیر ضرورت بھی استعمال کرتے ہیں، اس کے علاوہ اس علاقے میں جنگلات کی کٹائی بھی ہو رہی ہے۔
نور علی وزیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہاں پر سیاسی سماجی اور مقامی لوگوں نے حکومت سے کئی دفعہ چھوٹے ڈیمز بنانے کا مطالبہ کیا لیکن ابھی تک حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، نہ اس حوالے سے کوئی اقدمات اٹھائے ہیں۔
وانا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر رحمت اللہ نے کہا کہ یہاں پر پانی کی سطح کو کنٹرول کرنے کے لئے ہم نے شجر کاری مھم کئی دفعہ چلائی ہے اور خود بھی شجری کاری مھم کے تحت درخت لگائے ہیں جو کافی حد تک مفید ثابت ہوئے ہیں، مگر یہاں پر چھوٹے ڈیم بنانے اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئے اقدمات کرنے کی اشد ضرورت ہے، اگر یہاں پر اقدمات نہ اٹھائے گئے تو آبی قلت یہاں سے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی جو ملک کے زرعی شعبے کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو گی۔