چارسدہ: سیلاب سے متاثرہ مویشی چارے کے منتظر
عارف حیات
سیلاب سے متاثرہ چارسدہ کے دیہاتی علاقہ اعوان آباد کے مکینوں کے ہاں تقریباً سات ہزار مویشی ہیں، جنہوں نے چارہ میسر نہ ہونے پر دودھ دینا کم کر دیا ہے۔
ٹی این این ٹیم نے چارسدہ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے جمے کیچڑ اور گندگی میں اعوان آباد پہنچے تو وہاں ہزاروں بے زبان جانوروں کی فریاد دھاڑیں مارتے ہوئے سُنی۔
اعوان آباد میں کھیتی باڑی اور دودھ کی خریدو فروخت بڑا کاروبار ہے ہر گھر میں درجن سے زائد جانور بندھے دکھائی دیے۔
سیلاب نے انسانوں کو تو نقصان سے دوچار کر دیا لیکن وہیں مویشیوں کے چارے والے کھیت بھی دریائی ریت میں دفن کر دیئے۔
“ہمیں تو خوراک مل جاتی ہے مگر بے زبان جانور ناراض ہو گئے ہیں، ان کے لئے چارہ نہیں”، عرب گل نے دوڑتے ہوئے مویشیوں کی فریاد سُنائی۔
اعوان آباد کے رہائشی عرب گل کے گھر میں دو درجن مویشی ہیں، جن میں پانچ بھینسیں اور چھ گائے دودھ دینے والوں میں شامل ہیں، مگر چارے کے کھیت تباہ ہونے کے باعث جانور بھوکے ہیں۔ عرب گل نے بتایا کہ مویشیوں سے گِلہ نہیں کیونکہ چارہ ملتا نہیں تو دودھ کہاں سے دیں گے۔
آس پاس کے مکینوں نے بتایا کہ سیلاب کے بعد قریبی مقبرے میں جانوروں کو منتقل کر دیا مگر وہاں بھی گھاس پر سیلابی پانی نے زہریلے نقوش چھوڑے ہیں۔ زیادہ تر گھاس یا بھوسہ چارسدہ کے پڑانگ بازار سے خرید کر لاتے ہیں مگر اس کی قیمت بھی زیادہ ہو گئی۔
روخان شاہ نے بتایا کہ دودھ دینے والی ایک بھینس پر سیلاب کے بعد ایک دن کا پندرہ سو روپے تک خرچہ آتا ہے، گھاس کے ایک بیل (بنڈل) کی قیمت دو سو روپے ہو گئی جبکہ بھوسے کی ایک بوری پندرہ سو روپے میں دستیاب ہے۔
“ہم تو سیلاب کے وقت بس انہی پہنے ہوئے کپڑوں میں گھروں سے مویشیوں سمیت نکل آئے اب آپ ہی بتائیے ایک درجن مویشیوں کا چارہ کیسے خریدیں۔” روخان شاہ نے سوال اٹھایا۔
اعوان آباد کے مکینوں نے بتایا کہ سیلابی ریلے نے چارے کے سارے کھیت ڈبو دیئے اور اوپر سے دریائی ریت کا پلستر کر دیا، یہ دریائی ریت گرم ہوتی ہے جس سے مویشیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ مکین بتاتے رہے کہ دس سیر دودھ دینے والی بھینس نے مقدار پانچ سیر سے بھی کم کر دی۔
دودھ دینے والی بھینس کا خیال انتہائی نفاست سے رکھا جاتا ہے اور اس کے لئے خاص قسم کا ہرا گھاس کاٹ کر لایا جاتا ہے بلکہ باقاعدہ گھاس کے کھیت تیار کئے جاتے ہیں کیونکہ یہی دودھ ان لوگوں کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔
نواب خان نے ٹی این این کو بتایا کہ بچا کھچا گھاس بھی سیلابی پانی سے متاثر ہوا ہے، بھینسوں نے بھوک مٹانے کے لئے کھانے کی کوشش کی مگر مویشیوں کے پیٹ خراب ہو گئے، ہر پودے میں دریائی ریت پھنس چکی ہے جو بالکل جانوروں کے کھانے کے قابل نہیں رہے۔
انہوں نے بتایا کہ چارے کے کھیت دوبارہ آباد کرنے میں تقریباً چھ ماہ لگیں گے اور اتنا ہی عرصہ مویشیوں کے لئے تیار گھاس بازار سے خریدنا پڑے گا، جس کے بعد دودھ تو ملے گا مگر قیمتیں زیادہ ہو جائیں گی۔
سیلاب سے متاثرہ مویشیوں کے مسائل پر کالج آف وٹنری سائنس زرعی یونیورسٹی پشاور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شیر بہادر سے بات کی تو انہوں بتایا کہ سیلابی پانی جانوروں کے لئے تباہ کن ثابت ہو گا، سیلابی پانی زہریلا ہونے کے ساتھ گھروں، محلوں اور کھیتوں میں بھی پھیل گیا ہے جس سے جانوروں کو مختلف بیماریاں لگنے کا بڑا خدشہ ہے۔
انہوں نے تشویش ظاہر کی کہ سیلاب کے بعد جانوروں کو ڈائریا، انٹریٹیز، ہیمور ہیگک، سیپٹسمیا اور ٹوکسیما بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں، جس سے مویشیوں کے ہلاک ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیر بہادر نے بتایا کہ مناسب خوراک نہ ملنے پر مویشیوں سے ملنے والے دودھ کی مقدار میں کمی آ سکتی ہے، قدرتی آفت میں انسانوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی ویکسین لگانے کا سلسلہ جلد شروع کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں سیلاب کے باعث ساڑھے نو ہزار کے قریب جانور ہلاک ہوئے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں مویشیوں کے لئے چارے کا بندوبست نہیں ہے۔