جرائم

کے پی پولیس پر حملے، کیا ٹی ٹی پی نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا؟

عبدالستار

خیبر پختونخوا میں پولیس فورس پر شدت پسندوں کی حملوں میں تیزی آ گئی ہے جس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سیزفائر کے باجود قبول کر لی ہے۔

گزشتہ تین دنوں میں کالعدم ٹی ٹی پی نے پشاور، ڈی آئی خان اور لکی مروت میں پولیس فورس پر حملے کئے جن میں دو ستمبر کو پشاور، تین ستمبر کو ڈی آئی خان اور چار ستمبر کو لکی مروت میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، ان حملوں کے دوران پانچ پولیس اہلکار جاں بحق اور تین زخمی ہو گئے۔

کے پی پولیس پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کالعدم تنظم تحریک طالبان پاکستان نے کہا ہے کہ انہوں نے پولیس فورس پر حملے اپنے دفاع میں کئے ہیں۔

اس سے قبل افغانستان میں حکومت پاکستان اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان مذاکرات کے دوران نامعلوم وقت تک جنگ بندی پر متفق ہوئے تھے۔

اس حوالے سے تجزیہ کار اور سینئر صحافی طاہر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں پولیس فورس پر مسلسل تین حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد جب کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا ان حملوں کے بعد فائربندی کا معاہدہ ختم ہو گیا ہے تو ان کا جواب تھا کہ نہیں ہم نے اپنے دفاع میں یہ حملے کئے ہیں۔

تجزیہ کار طاہر خان نے کہا کہ پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے جبکہ ان تینوں واقعات میں آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا ہے اور نہ ٹی ٹی پی ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے ان پر کوئی حملہ ہوا ہے کہ جس میں ان کے جنگجو مارے گئے ہوں البتہ ایک مرتبہ جب وزیرستان میں ان کے دو ساتھی مارے گئے تھے تو بدلے کی بات کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جون کے پہلے ہفتے میں افغانستان میں منعقدہ جرگے میں پاکستانی وفد کی موجودگی میں جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا جس کو تین مہینے ہو گئے ہیں اور اب پہلی مرتبہ ٹی ٹی پی کی جانب سے اس قسم کے واقعات رونما ہوئے۔

طاہر خان نے کہا ”میرے خیال میں اس قسم واقعات سے بداعتمادی پیدا ہو گی اور ٹی ٹی پی کو واضح بیانیہ جاری کرنا ہو گا کہ فریقین کے درمیان جو فائربندی کا معاہدہ ہے وہ بحال ہے، مذاکرات میں پہلے سے اتنی تیزی نہیں ہے، جو پچھلے سال مذاکرات شروع ہوئے تھے اور اس میں نامعلوم وقت تک جنگ بندی کا اعلان ایک مثبت عمل تصور کیا جاتا تھا لیکن اگر اس طرح کے واقعات جاری رہے تو بداعتمادی بڑھے گی اور مذاکرات میں رکاوٹ بن سکتی ہے، پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات افغانستان میں طالبان حکومت کی نگرانی میں ہو رہے تھے لیکن افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے مرنے کے بعد طالبان حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور اندرونی حالات کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے جبکہ ڈرون حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ بھی بداعتمادی پیدا ہو گئی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اگر ٹی ٹی پی یہ دلیل دیتی ہے کہ یہ سب اپنے دفاع میں کیا ہے تو پولیس فورس اور دیگر سیکورٹی فورسز بھی ان کے ساتھی مارنے کے بعد یہ بیان جاری کریں گی کہ انہوں نے یہ کاروائی اپنے دفاع میں کی ہے۔

سینئر صحافی طاہر خان سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات اور کاروائیوں سے مذاکرات کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔

خیبر پختونخوا کے سابق سیکرٹری ہوم اور سابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اختر علی شاہ نے بتایا کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان ابھی مذاکرات کے مراحل ختم نہیں ہوئے لیکن یہ بات بھی نئی نہیں ہے کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان، اورکزئی اور سوات میں مختلف مواقع پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پولیس فورس پر حالیہ حملے مذاکرات کے دوران سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں، جس طرح افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات بھی جاری تھے اور افغانستان میں طالبان جنگجو اپنے حملے بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔

اختر علی شاہ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے علاوہ اور بھی شدت پسند گروپ موجود ہیں جو پولیس فورس اور دیگر سیکورٹی فورسزپر حملوں میں ملوث ہیں، کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے اندر چھوٹے گروپ بنے ہوئے ہیں جن کی حال ہی میں ویڈیوز بھی جاری ہو چکی ہیں جن میں وہ مذاکرات کو دھوکہ دہی سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس فورس پہلے بھی آسان ٹارگٹ رہی ہے اور فرنٹ لائن پر رہتی ہے، پولیو ٹیموں کے ساتھ بھی پولیس کے جوان ہوتے ہیں اور اکثر واپسی پر عسکریت پسند ان کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے پولیس فورس پر حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے واقعات کو جنگ بندی کے معاہدے کو ختم قرار دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی بتا رہی ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ برقرار ہے اور یہ حملے انہوں نے اپنے دفاع میں کئے ہیں جبکہ حکومتی ارکان بھی جنگ بندی برقرار رہنے کا دعوی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس فورس پر حملوں کی ذمہ داری کے بعد فریقین سیاست سے کام لے رہے ہیں اور معاہدہ برقرار رہنے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن فریقین جنگ بندی ختم ہونے کے اعلان کا الزام لینے سے اپنے آپ کو بچا بھی رہے ہیں۔

صحافی رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق افغانستان میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری اور ٹی ٹی پی کے سرکردہ رہنما عمر خالد خراسانی کے مرنے کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہیں لیکن جنگ بندی کا معاہدہ برقرار تھا، ٹی ٹی پی کی جانب سے حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے پر سوال اٹھتا ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ کس طرح برقرار ہے؟

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے وقت ایک کمیٹی بنائی گئی تھی کہ جس وقت کوئی غلط فہمی پیدا ہو گی تو کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی اور آپس میں بیٹھ کر مسئلہ حل کریں گے لیکن ان حملوں کے بعد کمیٹی کا بھی کوئی ردعمل نہیں دیکھا گیا۔

رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی ختم ہو گئی ہے اور جلد باقاعدہ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی حملےشروع کئے ہیں اور باجوڑ آج کل داعش کا گڑھ بن چکا ہے، داعش افغانستان میں بھی سرگرم ہے اور اس طرف پاکستان میں بھی کاروائیوں میں ملوث ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button