”بارہ سال سعودی رہا لیکن وہ ساری محنت دریابرد ہو گئی”
سارا سرمایہ اس جگہ انویسٹ تھا جہاں اب یہ پتھر اور ریت نظر آتے ہیں۔ محمد ندیم
جنید ابراہیم
مینگورہ سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سوات کی تحصیل مٹہ کا برتھانہ گاؤں اپنی خوبصورتی کے ساتھ پھل دار باغات اور سبزیوں کی کاشت کے حوالے سے بھی کافی مشہور ہے۔ حالیہ مون سون بارشوں کے باعث سوات کے مختلف علاقوں میں بھی سیلاب آ گیا جس میں درجنوں انسانی جانیں، مال مویشی، گھر اور زرعی زمینیں تباہ ہو گئیں۔ برتھانہ میں بہتی خوبصورت ندی نے بھی یہاں کے علاقے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
مقامی باشندے محمد نعیم نے ٹی این این ریڈیو کو بتایا کہ میری ساری زندگی کا سرمایہ سیلاب بہا لے گیا، ”یہاں ہمارا جو بھی تھا میرے بچوں نے سعودی عرب میں مزدوری کر کے بنایا تھا جو اب ریت میں تبدیل ہو گیا ہے۔”
انہوں نے بتایا ”جب میں گھر پہنچا تو گھر سیلاب کے نیچے آ گیا تھا، اوپر والا گاؤں بھی بہہ گیا تھا، چار سے پانچ لاکھ کا سامان جو میرے گھر پڑا تھا بہہ گیا تھا۔” اس ندی میں طغیانی کے باعث تباہ ہونے والی تعمیرات میں چالیس مکان، ایک سکول اور دو مساجد شامل ہیں۔
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد عرفان نے بتایا ”بہت ہی مشکل سے ہم نے اپنے گھر بنا کر آباد کئے تھے، اس سے پہلے یہاں طالبان اور دہشت گردی تھی پھر دو ہزار دس میں سیلاب آیا جس کے باعث یہاں سب کچھ تباہ ہوا تھا اب یہ سیلاب آیا اور ہمارا سب کچھ لے گیا اب ہمارا کچھ نہیں بچا۔”
مٹہ تحصیل کے عوام زیادہ تر زراعت سے وابستہ ہیں، سیلاب کی وجہ سے ان لوگوں کی کھڑی فصلیں دریا میں بہہ گئیں۔
برتھانہ کے ایک زمیندار جو سیب اور آڑو کے باغات کے مالک ہیں، انہوں نے بتایا ” سیلابہمارے گھروں سمیت فصلوں اور زرعی زمینیں پانی بہا لے گیا، سو سے دو سو کنال زرعی زمین سیلاب کے باعث تباہ ہوئی، ہمارے سیب اور آڑو کے باغات تھے جو کہ ختم ہو گئے۔”
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہروں میں کرائے کے گھر ملتے ہیں، یہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے تو یہاں کے بے گھر لوگ بمشکل رشتہ داروں کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں اور بڑی ہی سختی سے زندگی بسر کر رہے ہیں جس پر ہمیں انتہائی افسوس ہے، ٹنیٹ بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ اس کی جگہ بھی نہیں بچی۔
حالیہ دنوں میں سعودی عرب سے آئے محمد ندیم نے کہا ان کا سارا سرمایہ اس جگہ میں انویسٹ تھا جہاں اب یہ پتھر اور ریت نظر آتے ہیں، ”اسے ہم دیکھتے ہیں تو دل بھر آتا ہے لیکن کریں بھی تو کیا کریں، میں بارہ سال سعودی رہا لیکن وہ ساری محنت دریا برد ہو گئی۔”
ایک سوال کے جواب میں انہوں بتایا کہ انہوں نے ایک کام اچھا یہ کیا کہ بروقت بچوں اور خواتین کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا، ”اب تک کسی حکومتی اہلکار یا ادارے نے رابطہ نہیں کیا اور ہم بس کھلے آسمان تلے اپنی زندگی جی رہے ہیں۔”