مسیحی برادری میں شادی، طلاق کب اور کیسے ہوتی ہے؟
عائشہ یوسفزئی
دنیا کے تقریباً ہر ملک میں باقی شعبوں کے ساتھ فیملی، شادی بیاہ اور طلاق کے قوانین بنائے جاتے ہیں، نکاح اگرچہ دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے لیکن ہر ملک میں اسے ایک قانونی تحفظ بھی دیا جاتا ہے، پاکستان بھی انہی ممالک میں شامل ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں پر بسنے والی اقلیتوں خصوصاً مسیحی برادری کے حوالے سے کوئی ٹھوس، جامع اور واضح قانون موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً خواتین احساس عدم تحفظ کا شکار رہتی ہیں۔ ان سطور میں قانون کی عدم موجودگی یا اس میں پائے جانے والے ابہام اس سے متعلق حکومتی کوششوں اور مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے تاثرات اور خیالات جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس حوالے سے پشاور میں رہائش پذیر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی سمیرا کا کہنا ہے کہ میں پڑھی لکھی نہیں ہوں، گیارہ سال قبل میری شادی ہوئی لیکن سات سال قبل میری طلاق ہو گئی تھی۔ طلاق کی وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میرا رشتہ آیا تو میرے سسرال والوں نے میری امی سے جھوٹ بولا کہ لڑکا سرکاری نوکری کرتا ہے اور نیک بھی ہے مگر شادی کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ چوریاں کرتا ہے اور دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات میں بھی ملوث ہے، ”کئی بار میں میکے روٹھ کے چلی گئی مگر پھر اپنے دو بچوں کی خاطر واپس شوہر کے گھر آ جاتی مگر کچھ وقت کے بعد حالات پہلے جیسے ہی ہو جاتے تھے، بچے بھوکے رہتے تھے اور جب گھر کے اخراجات کے لئے پیسے مانگتی تو شوہر تشدد کرتا تھا، ایک دن شوہر نے مجھ سے کہا کہ گھر کا خرچہ نہیں ہے تو تم رشتہ داروں کے گھر چلی جاؤ، میں اپنے دو بچوں کو لے کر اپنی خالہ کے گھر چلی گئی، کچھ دنوں بعد میرا شوہر بھی آ گیا، وہ کہہ رہا تھا کہ مالک مکان نے دو تین مہینوں کا کرایہ مانگا جو کہ میں ادا نہیں کر سکا تو اس نے گھر خالی کرا دیا، ایک دن میرے شوہر نے میری خالہ کے سامنے مجھ پر تشدد کیا جس کے بعد میرے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ رشتہ مزید نہیں رہ سکتا اور میں طلاق لینے عدالت چلی گئی۔”
انہوں نے بتایا جو وکیل میرے کیس کو دیکھ رہا تھا وہ بھی مسیحی تھا، میرا شوہر گرفتاری کے ڈر سے عدالت کی تاریخوں کے مطابق حاضر نہیں ہوا تو عدالت نے ہمارے درمیان طلاق کروا دی، بچے بھی میرے حوالے کر دیئے، طلاق کے بعد شوہر بچوں کی کسی بھی قسم کی ذمہ داری نہیں لے رہا، اب میں اپنے بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں اور ان کو سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوا رہی ہوں۔ سمیرا کہتی ہیں کہ وہ شادی، طلاق اور اس کے بعد کے حالات سے بہت پریشان ہیں۔
پشاور میں واقع ایگزوڈس چرچ کے پاسٹر ماسٹر عارف نے ٹی این این کو بتایا کہ مسیحی برادری میں شادی بیاہ کا طریقہ کار ایسا ہے کہ اس میں حق مہر نہیں لکھا جاتا، دوسرا کسی سٹامپ پیپر پر کوئی معاہدہ وغیرہ بھی نہیں طے پاتا کیونکہ اس کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، گرجا گھر میں شادی کرنے والے لڑکا لڑکی کے خاندانوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے اگر دونوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو پھر شادی نہیں ہو سکتی، شادی کرنے کے لیے پہلے دونوں خاندان مل بیٹھ کر آپس میں صلاح مشورے سے شادی کی تاریخ مقرر کرتے ہیں، پھر چرچ والوں کو وہ تاریخ دی جاتی ہے، چرچ میں دلہا دلہن کھڑے ہوتے ہیں، پھر اس دوران ان دونوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ نکاح ان کی مرضی سے ہو رہا ہے یا نہیں، جب دونوں کی طرف سے جواب ہاں میں مل جائے تو پھر نکاح کی رسم شروع کر دیتے ہیں مگر اس سے قبل مسیحی بائبل قانون کے مطابق ہم تین ہفتے باقاعدہ چرچ میں اعلان کرتے ہیں، جس کو پکارا کہا جاتا ہے اس سے یہ خادمین پوچھتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے لڑکا اور لڑکی کا پاک نکاح خدا کی نظر میں جائز نہیں ہے تو کوئی بھی ہمیں آ کر اس بات کی اطلاع دے، پھر کوئی آ کر کسی بات کی شکایت کرے تو بس اس کو سچ مانا جاتا ہے اور پھر اس شادی کو ختم کر دیا جاتا ہے، نکاح والے دن بھی یہی سوالات حاضرین سے پوچھے جاتے ہیں اور جب کوئی اس طرح کی وجہ سامنے نہ آئے تو تب پاک نکاح کی پوری رسم کو ادا کیا جاتا ہے، دلہا دلہن کے آگے بائبل رکھی جاتی ہے، اس بات کا وہ دوںوں عہد کرتے ہیں کہ ہم دوںوں مسیحی قانون کے مطابق رہیں گے چاہے جیسے بھی حالات ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ بائبل کے نظریے کے مطابق جن چیزوں سے نکاح ناجائز تصور کیا جاتا ہے ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ دونوں میں سے پہلے کسی کی بھی شادی ہو چکی ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ لڑکا لڑکی میں کوئی شادی کے لئے رضامند نہ ہو اور شادی سے انکار کرے، اس کے علاوہ اگر ان میں سے کسی کے دوسروں کے ساتھ ناجائز تعلقات ہوں تو ان صورتوں میں نکاح کو جائز قرار نہیں دیا جاتا مگر طلاق تب ممکن ہے کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک کا کسی دوسرے مرد یا عورت کے ساتھ ناجائز تعلق ہو ورنہ مسیحی مذھب میں اس وجہ کے علاوہ طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کل کچھ لوگ طلاق لے بھی لیتے ہیں کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو شعور مل گیا ہے، یہ لوگ عدالت جا سکتے ہیں اور عدالت کے زریعے طلاق لے لیتے ہیں، اور بعد میں دوسری شادی بھی کرتے ہیں مگر مسیحی برادری میں جب تک والدین یا خاندان کے جو بڑے ہوتے ہیں وہ اگر بیٹھ کر طلاق کا فیصلہ نہ کریں تو تب تک طلاق نہیں ہو سکتی، جب بڑے ٹھان لیں کہ شادی شدہ جوڑے کی طلاق ہونی چاہیے تب جا کر عدالت میں کیس دائر کرتے ہیں اور پھر عدالت طلاق کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیتی ہے، یہ ایک ثبوت ہوتا ہے کیونکہ ہمارے مذہب میں زبانی طلاق کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، طلاق یافتہ لڑکے اور لڑکی کو گناہ گار مانا جاتا ہے لیکن سزا اس کی یہ ہے کہ خدا کی طرف سے معافی نہیں ملے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ مسیحی برادری میں مرد اور عورت دوسری شادی تب کر سکتے ہیں جب دونوں میں سے کسی کا شوہر یا پھر بیوی وفات پا جائے یا پھر ناجائز تعلقات کی وجہ سے طلاق ہوئی ہو، اب اگر ان کے بچے بھی ہوں تو قانون کے تحت بچوں کی کفالت کی ذمہ داری باپ پر ہی ہو گی لیکن مذھب کی رو سے دیکھا جائے تو طلاق کی گنجائش ہی نہیں ہے تو والدین میں سے جو صاحب استطاعت ہے وہ ہی ان کی پرورش کرے گا۔
مسیحی مذھب میں دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی شخص دوسری شادی کرتا ہے تو اس کو دس سال تک سزا یا جرمانہ یا دونوں کیا جا سکتا ہے، دوسری شادی کو نہ صرف گناہ تصور کیا جاتا ہے بلکہ مسیحی قانون کی خلاف ورزی بھی مانی جاتی ہے۔
دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ کے وکیل نعمان محب کاکاخیل نے مسیحی برادری کے شادی بیاہ کے قانون کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک بہت پرانا قانون ہے جو کہ انگریزوں نے ہمارے لئے بنایا تھا اور ابھی تک اس قانون کو فالو کیا جاتا ہے، ڈائیورس ایکٹ اٹھارہ سو انہتر اور کرسچئن میرج ایکٹ اٹھارہ سو بہتر (1872) کے تحت مسیحی برادری کے شادی بیاہ کے قانون کے مطابق دیکھا جاتا ہے اس میں جو سب سے بڑا کردار ہوتا ہے وہ چرچ آف انگلینڈ، چرچ اف سکاٹ لینڈ اور چرچ آف روم کا ہے. ان کے تین طریقہ کار ہیں اور مسیحی برادری کے لوگ ان تینوں میں سے کسی بھی چرچ کا طریقہ اپنا سکتے ہیں، ان کے نیچے پھر چیپلز (چھوٹے گرجا گھر) بھی آتے ہیں، ”چیپل چرچ کی نسبت چھوٹا ہوتا ہے. مسیحی برادری میں شادی کا طریقہ کار یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی عمر اکیس سال ہو گی تو یہ اپنی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں لیکن جن کی عمر اکیس سال سے کم ہے تو پھر والدین کی سرپرستی میں شادی کرتے ہیں جن میں پہلے ان کی والدہ، دوسرے نمبر پر والد اور اس کے بعد ان کے باقی گھر کے بڑے شمار ہوتے ہیں مگر اس صورت میں لڑکی کی عمر تیرہ سال اور لڑکے کی عمر سولہ سال یا اس سے زیادہ ہو گی۔”
مسیحی طلاق کے طریقہ کار بارے میں محب کاکاخیل نے بتایا کہ اس کے تین طریقے ہیں، شادی کا خاتمہ اس بات پر بھی کیا جاتا ہے: عورت یا آدمی زنا کا مرتکب قرار پائے اس میں پھر عورت کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنی شادی ختم کر سکتی ہے،
کوئی فریق اپنا مذہب تبدیل کر دے
کوئی بھی زنا میں ملوث ہو
کسی جانور کے ساتھ جنسی عمل کرے یا ریپ میں ملوث ہو، ان وجوہات پر عورت قانون کے مطابق طلاق لے سکتی ہے.
شادی کے خاتمے کی دوسری صورت یہ ہے کہ مرد میں جنسی عمل کی صلاحیت کم ہو یا نہ ہو، اولاد نہ ہو رہی ہو، شوہر یا بیوی پاگل ہو، پہلی شادی کے بارے میں جھوٹ بولا ہو یعنی مر گیا یا مر گئی ہے اور بعد میں وہ زندہ نکل آئے لیکن اس قانون میں ایک صورت یہ بھی ہے کہ جوڈیشل سیپریشن (علیحدگی) ایسی ہوتی ہے کہ شادی تو رہتی ہے مگر میاں بیوی ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں اور یہ لوگ دوسری شادی نہیں کر سکتے۔
مسیحیوں کے ہاں کزن میرج یا خونی رشتوں کے ساتھ شادی نہیں کی جاتی، کرسچن میرج ایکٹ اٹھارہ سو بہتر میں ان کے نکاح کا اپنا طریقہ ہے کہ جس کو نکاح ہی کہا جاتا ہے، ان کا ایک نکاح رجسٹرار ہوتا ہے اور ان کی شادی چرچ میں ہی ہو گی پھر اس میں وقت یہ دیا گیا ہوتا ہے کہ صبح چھ بجے سے لے کر شام سات بجے تک نکاح کی رسم ادا کر سکتے ہیں، ان اوقات کے علاوہ شادی نہیں ہو سکتی، پھر اس میں بشپ کو لائسنس دیا جاتا ہے نکاح رجسٹریشن کا لائسنس ملتے ہی یہ ڈکلئیریشن کرتے ہیں، حلف لیتے ہیں اپنی پوری معلومات دیتے ہیں پھر ان کو ایک نوٹس جاری کیا جاتا ہے، اس نوٹس کو بورڈ پر لگا دیا جاتا ہے کہ اگر کسی کو اس شادی پر اعتراض ہے تو وہ شادی کرنے سے پہلےتک اعتراض کر سکتا ہے، اکیس سال کی عمر کے لوگوں کی شادی میں دو گواہ درکار ہوتے ہیں لیکن اس سے کم عمر کے جوڑوں کی شادی کے لیے ایک درخواست دی جاتی ہے، درخواست کے ساتھ ایک حلفیہ سرٹیفیکیٹ بھی دیا جاتا ہے کہ لڑکے لڑکی کا کوئیخونی رشتہ نہیں ہے، لڑکی طلاق لینے کے بعد عدالت سے اپنی جانی اور مالی حفاظت اور دیگر لوازمات حیات کے لیے رجوع کر سکتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے وکیل راشد عمر نے ٹی این این کو بتايا کہ سال دو ہزار تیرہ اور چودہ کے بعد مسیحی برادری کی تنظیموں نے نیشنل لابنگ وفد سے ملاقات کر کے اپنی سفارشات پیش کیں کہ ان اعمال کو روکا جائے:
کرسچن شادی بیاہ میں بچوں کی کم عمری میں شادی کرنے کے عمل کو روکنا
مسیحی برادری کے لوگ چرچ میں شادی کریں گے، چرچ میں شادی کا خرچ زیادہ ہو جاتا ہے
مسیحی برادری کے لوگ اپنے ہی مذھب کے لوگوں سے شادی کریں گے
یہ وہ تین سفارشات تھیں کہ جن کو مسیحی برادری تبدیل کرنا چاہتی تھی اور ان پر قانون سازی کا مطالبہ کر رہے تھے اس کے بعد نیشنل لابنگ وفد نے ان سفارشات کو ڈاکومنٹ کی شکل میں مرتب کیا اور ہیومن رائٹس کمیشن کو بھیج دیا، ہیومن رائٹس کیمشن نے اس کو بل کی صورت میں فیڈرل کیبنٹ کے سامنے رکھ دیا لیکن ابھی تک یہ بل زیر التوا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں راشد عمر نے کہا کہ کہ پرانے کرسچن ایکٹ میں تبدیلی پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے، اس بل پر ایکٹ کی صورت میں کام ہو چکا ہے بس صرف اس کی منظوری پارلیمنٹ سے ہونا باقی ہے۔ منظور ہونے کے بعد پھر اس کو گزٹ کی شکل میں شائع کیا جائے گا جس کے بعد پورے ملک میں یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔