سیاحت ممنوع: باجوڑ میں خواتین پر ایک اور پابندی
مصباح الدین اتمانی
باجوڑ میں ایک اور جرگے نے سیر و تفریح کے مقامات میں خواتین کی آمد پر مکمل پابندی عائد کر دی۔
جمعیت علماء اسلام کے زیراہتمام تحصیل سلارزئی میں منعقدہ مقامی ملکانان، سیاسی رہنماؤں اور نوجوانوں سمیت تقریباً چار سو شرکاء پر مبنی جرگہ میں ہونے والے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے سابق سینٹر مولانا عبدالرشید نے کہا کہ سیاحتی مقامات میں خواتین کا آنا اور مردوں کے ہمراہ گھومنا پھرنا ہماری روایات کی خلاف ورزی ہے جو ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے اس لئے ہم نے متفقہ فیصلہ کیا کہ آئندہ خواتین کے سیاحتی مقامات میں آنے پر پابندی ہو گی۔
جرگے کے ممبر اور میئر سب ڈویژن تحصیل خار سید بادشاہ نے خواتین پر پابندی کے حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ ہم پارکس اور سیر و تفریح کے خلاف نہیں، ہم کہتے ہیں کہ پارکس اور تفریحی مقامات کی تعمیر ہو لیکن ہم فحاشی پھیلانے کی اجازت بالکل بھی نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین گھروں سے نکل سکتی ہیں لیکن سیر و تفریح کے مقامات پر انہیں نہیں جانا چاہیے کیوں کہ مرد ہوتے ہیں، یہ پشتون اور اسلامی روایات کے منافی ہے۔
سید بادشاہ نے بتایا کہ عید میں خواجہ سراء باجوڑ لائے گئے تھے، یہاں کے لوگ اسلام پسند ہیں اس لئے ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو گئے، راغگان ڈیم میں جس سیاحتی مقام کو امن پارک کا نام دیا گیا ہے وہ بدامنی کا سبب بن رہا ہے،
"کس نے خواتین کو ان کا حق دیا ہے؟ کیا صرف ان کو کھلم کھلا آزاد گھومنے پھرنے کی اجازت دینا ہی ان کا حق ہے؟
کس نے بیٹی بہن کو وراثت میں حصہ دیا ہے؟” سید بادشاہ نے سوال اٹھایا۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والی سارہ خان (فرضی نام)، جو پیشے کے لحاظ سے ایک استانی ہیں، اس عید پر اپنی فیملی کے ہمراہ تفریح کیلئے باجوڑ کے مشہور سیاحتی مقام گبر چینہ گئی تھیں، آج جرگہ میں ہونے والے فیصلے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ خواتین پر کوئی اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتا اور نہ ہی انہیں سیاحتی مقامات جانے سے روک سکتا ہے، ”کس آئین اور کس قانون کے تحت خواتین کی غیرموجودگی میں اس قسم کے فیصلے کئے جاتے ہیں؟”
سارہ خان نے کہا کہ جس طرح مرد کام کرنے کے بعد ذہنی طور پر تھک جاتے ہیں اور سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں اسی طرح خواتین کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ فیملی کے ہمراہ پردے میں سیاحتی مقامات کی سیر کر آئیں، اس سے فحاشی پھیلتی کیسے ہے؟ انہوں نے کہا کہ خواتین پر پابندیاں لگانے اور ان پر اس قسم کے من پسند فیصلے مسلط کرنے سے ان کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
سارہ نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کو نہ وراثت میں حصہ دیا جاتا ہے نہ تعلیم دی جاتی ہے، آج ان کی تفریح پر پابندی لگائی گئی، کل ہسپتال جانا بھی بند کر دیا جائے گا، اس قسم کے خودساختہ جرگے خواتین کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔
باجوڑ نواگئی سے تعلق رکھنے والے محقق اور ادیب مولانا خانزیب نے جرگے میں ہونے والے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور مرد لازم و ملزوم ہیں اور یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے چلا آ رہا ہے، پشتون معاشرہ بالخصوص باجوڑ کے عوام روایتی اقدار پر سختی سے کھڑے ہیں اور یہاں کے لوگ اسلامی اقدار کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ان روایت میں خواتین کیلئے زندگی کی اپنی ایک چوکھاٹ مقرر ہے جس کے اندر خواتین کھیتوں میں بھی کام کرتی ہیں، پہاڑوں سے لکڑیاں بھی لاتی ہیں، جانوروں کیلئے گھاس کا بندوبست بھی کرتی ہیں، اگر ہم اسلامی تعلیمات کی بات کریں تو وہاں خواتین کیلئے حدود اور قیود مقرر یں جن کے مطابق خواتین مرد کے ہمراہ بازار جا سکتی ہیں، وہ ہسپتال جا سکتی یں، خواتین ہر اس جگہ جا سکتی ہیں جہاں مرد جاتے ہیں۔
مولانا خانزیب نے کہا کہ میری نظر میں اس قسم کے فیصلوں سے باجوڑ کا ایک منفی تاثر جائے گا، باجوڑ میں جو ہو رہا ہے یہ اسلام اور مذہب کے نام پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ہو رہا ہے، ان مذہبی جماعتوں کی خواتین پارلیمنٹ جاتی ہیں، اسمبلیوں میں بیٹھتی ہیں وہاں پر یہ نہیں کہتے کہ خواتین یہاں کیوں آئی ہیں کیونکہ وہاں ان کو رشتے اور مقاصد مقدس ہوتے ہیں۔
مولانا خانزیب نے کہا کہ باجوڑ میں آئینی اور قانونی ادارے موجود ہیں اگر کسی کی نظر میں کچھ غلط یا غیرقانونی ہو رہا ہے تو متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں، اس قسم کے جابرانہ فیصلے معاشرے میں بدامنی کو فروغ دیں گے، اداروں کو پوچھنا چاہیے کہ کس اختیار کے تحت یہ فیصلے ہو رہے ہیں، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ افغانستان کی طرح کے حالات یہاں پیدا کئے جائیں اور اپنی مرضی کے فیصلے لوگوں پر مسلط کئے جائیں۔
واضح رہے اس سے پہلے بھی مقامی جرگے باجوڑ میں خواتین کے ایف ایم ریڈیوز کو کالز کرنے اور مرد کے بغیر بازار جانے پر پابندی لگا چکے ہیں۔