درآمدات پر پابندی: امیروں کے منہ سے فاسٹ فوڈ چھیننے کی کوشش
عارف حیات
ملک میں جب بھی مہنگائی بڑھتی ہے تو میڈیا پر ”غریبوں کے مُنہ سے نوالہ چھیننے کی کوشش” جیسی خبریں نشر کی جاتی ہیں مگر اس بار امیروں کے مُنہ سے فاسٹ فوڈ چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے گذشتہ ماہ 19 مئی کو ہر قسم کی درآمدات پر تین ماہ کے لئے پابندی عائد کر دی، جس سے بیکری شاپس اور ریسٹورنٹس میں فاسٹ کا کاروبار متاثر ہو گیا۔ ان تمام اشیاء کو لگژری آئٹم میں ڈالا گیا ہے۔
پاکستان کھانے کی بیشتر اشیاء کے خام مال کو بیرون ممالک سے درآمد کرتا ہے جن میں یورپی ممالک، امریکہ، تھائی لینڈ، فلپائن، ترکی اور امریکہ شامل ہیں۔ ملک کی بیکری شاپس اور ریسٹورنٹس میں تیار ہونے والے کیک، بسکٹ، پیزا اور دیگر اشیاء کے لئے خام مال درآمد کیا جاتا ہے۔
لوٹس، مشروم، اولیو آئل، بلیک اولیو سمیت مختلف کین فوڈ کی درآمد پر پابندی نے کاروبار میں جمود پیدا کیا ہے۔
پشاور میں کین فوڈ کے لئے خام مال درآمد کرنے والے عارف اعجاز نے ٹی این این کو بتایا کہ راتوں رات حکومتی فیصلے سے کاروبار کو دھچکا لگا ہے، پابندی لگانے سے قبل امپورٹرز کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، حکومتی پابندی لگتے وقت اربوں روپے مالیت کے تقریباً 900 کنٹینرز کراچی پورٹ پہنچے ہیں مگر یہ مال متعلقہ امپورٹرز کو حوالے نہیں کیا جا رہا ہے۔ عارف اعجاز نے بتایا کہ پاکستان پہنچا ہوا مال تو کم از کم حوالے کیا جائے تاکہ مذکورہ آرڈرز پورے کئے جا سکیں۔
پشاور میں زیادہ تر مرغن پکوان کھائے جاتے ہیں مگر اب فاسٹ فوڈ اور بیکری آئٹم کا رجحان کافی بڑھ گیا ہے۔ ان اشیاء کے ماہر کاریگر بھی پشاور کی مختلف بیکری شاپس اور ریسٹورنٹس میں کام کرتے ہیں۔
مارکیٹ سروے کے مطابق پشاور میں بیکری کی 500 دکانیں ہیں جن میں بیکرز اور دیگر عملہ کی تعداد لگ بھگ 50 ہزار ہے۔
زیادہ تر بیکری دکانوں میں یہی آئٹم دستیاب ہیں جن میں امپورٹڈ خام مال استعمال کیا جاتا ہے جس سے کاروبار چل رہا تھا۔
عارف اعجاز نے بتایا کہ بیکری اور ریسٹورنٹس میں اب اگر اچھے معیار کی اشیاء نہیں ملیں گی تو کاروبار متاثر ہونے سمیت مزدوروں کے بڑے پیمانہ پر بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
پشاور میں ریسٹورنٹ کے مالک انور علی نے ان تمام صورتحال پر بتایا کہ پیزا، کیک اور دیگر جنک فوڈز کے خام مال کی درآمد پر پابندی نے نقصان سے دوچار کیا ہے، مینو میں شامل مختلف آئٹم اب خام مال نہ ہونے کے باعث تیار نہیں کیے جاتے، ”پہلے سے موجود آئٹم کو چار سے پانچ گنا مہنگا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پیزا اور بیف سٹِک سمیت دیگر آئٹم تیار کرنے پر اخراجات مقررہ ریٹ سے دو سو روپے زیادہ ہو گئے ہیں”، انور علی نے بتایا۔
علی کے مطابق مختلف اقسام کے ساسز اور مشروبات کی تیاری کے لئے خام مال کا دستیاب نہ ہونا معیار اور کاروبار کو مفلوج کر رہا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے امپورٹر طارق عزیز نے بتایا کہ بیشتر کاروباریوں کا مال بیرون ملک پڑا ہے جس کا کرایہ اور حفاظت کرنے کا خرچ متعلقہ شخص خود اُٹھائے گا، جبکہ ڈالر کی قدر میں اضافہ سے یہ اخراجات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔