نواب قلعہ: ٹانک کی نمایاں خصوصیت اور پہچان
وطن زیب خان
نواب قلعہ خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان کے شمال مغرب میں 66 کلومیٹر کے فاصلے پر شہر ٹانک میں موجود قدیم اور تاریخی قلعہ ہے واقع ہے۔
تقریباً 400 سال پرانا یہ قدیم اور تاریخی قلعہ ٹانک شہر کی نمایاں خصوصیت اور پہچان بن چکا ہے۔ یہ تاریخی قلعہ 200 کنال پر پھیلا ہو ہے اور اس کے چاروں اطراف دیوار بنی ہوئی ہے۔ مٹی سے تعمیر کردہ اس قلعہ کی سترہ فٹ بلند اور 15 سے 25 فٹ تک چوڑی دیواریں اس وقت کے نوابوں کی طرز حکمرانی اور طرز زندگی کی کہانی بیان کر رہی ہیں۔
قلعہ کی اس دیوار پر تانگہ بگھی چلائی جاتی تھی۔ اس کا مقصد قلعہ کے اندر لوگوں کو باہر کے دشمنوں کے حملوں سے خبردار کرنا ہوتا تھا۔ قلعہ کے چاروں اطراف میں توپ خانے بنائے گئے تھے۔ اس قلعہ کا گیٹ اتنا وزنی اور مضبوط ہے کہ تین سے چار آدمی مل کر ہی اسے کھول سکتے ہیں۔
اس قلعہ کی بنیاد آج سے 400 سال پہلے نواب سرور خان نے رکھی اور اس کی تعمیر آج سے ڈھائی سو سال پہلے ہوئی۔ بادشاہ اکبر کے دور میں کٹی خیل قبیلے کے سردار خان زمان نے ٹانک کی بنیاد رکھی۔ خان زمان کے بعد سرور خان نے 16 سال کی عمر میں حکومت سنبھالی اور ایک قلعہ تعمیر کروایا۔
ٹانک قلعہ 18 ویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا گیا اور اس وقت ٹانک شہر کے متعدد دروازے تھے، چھوٹا اور بڑا دروازہ مشہور تھے۔
1842 میں انگریزوں نے ٹانک کا نظام شاہنواز خان کٹی خیل کے سپرد کیا۔ نواب سرور خان کے بعد ان کے پوتے نواب شاہنواز خان 1847 سے 1875 تک ٹانک کے نواب رہے۔ تب انگریزوں کی حکومت ہوا کرتی تھی تو انھوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ شروع کی اور پھر جب وہ اتنے مضبوط ہوئے کہ انگریزوں کو محسوس ہونے لگا کہ وہ ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے تو انگریزوں نے ان کو اس علاقے کی نوابی دے دی۔ نواب شاہنواز خان کے بعد ان کے بیٹے غلام قاسم نے امور سنبھالے۔ نواب قاسم کے بعد ان کے بیٹے نواب قطب الدین خان نواب کہلائے۔
یہ قلعہ چونکہ بہت بڑا تھا اس کے اندر بہت بڑا پولو گراؤنڈ ہوا کرتا تھا، ایک مسجد بھی تھی اور ایک بہت ہڑا جرگہ ہال، جرگہ ہال آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ جرگہ ہال نواب قطب الدین خان کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا جس میں بہت بڑے بڑے فیصلہ ہوا کرتے تھے اور یہیں پر نواب آف ٹانک نواب قطب الدین خان اپنی عدالت لگایا کرتے تھے، لوگوں کے مسئلے حل کیا کرتے تھے۔ نواب قطب الدین خان نے ٹانک کے لوگوں کی بہت خدمت کی۔
اس قلعے میں تاریخی مسجد آج بھی موجود ہے جو کہ نواب قطب الدین صاحب نے خود بنائی تھی جس کی تعمیر آج سے تقریباً 300 سال پہلے ہوئی ہے۔ اس مسجد میں استعمال ہونے والی اینٹیں افغانستان کے شہر غزنی سے اونٹوں کے ذریعے لائی گئی تھیں۔
قلعہ کی باقیات میں ایک پرانا دروازہ ، عدالت اور نواب صاحب کے بیڈروم اور مہمان خانے میں موجود فرنیچر کتابیں اور اس وقت کا نقشہ، جسے Road Map of India کہا جاتا ہے، باقی ہیں۔
حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے نواب صاحب کے پڑپوتے نوابزادہ وہاب خان کٹی خیل نے اپنے دادا کے بیڈروم، مہمان خانہ اور مسجد سمیت عدالت کی تزئین و آرائش کرائی ہے۔ نواب صاحب کی لائبریری میں اہم اور تاریخی ذخیرہ، 100 سال پرانے نقشے موجود ہیں۔
اتنا تاریخی مقام ہونے کے باوجود بھی بدقسمتی سے نواب قلعہ آثار قدیمہ اور ٹورازم ڈپارٹمنٹ اور انتظامیہ کی آنکھوں سے اوجھل ہے جس کی وجہ سے یہ اپنے اثرات دن بہ دن کھوتا جا رہا ہے اور دن بہ دن اس کی حالت اور بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔
مقامی لحاظ سے یہ قلعہ آج بھی ٹانک کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔مختلف ثقافتی کھیلوں اور سیاسی جلسوں کے لیے آج بھی اس قلعے کے بڑے بڑے گراؤنڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ریچھ اور کتے کی لڑائی ہو، کبڈی ہو یا سائیکل سیکھنا ہو، کوڈی میلہ ہو یا سیاسی جلسہ ہو یا پھر کوئی آزادی ریلی، ان سب کے لیے مناسب جگہ ٹانک کا تاریخی قلعہ نواب قلعہ ہوا کرتا ہے۔
نواب قلعہ ہمارے بزرگوں کی ایک نشانی ہے کہ انھوں نے کیسے آزادی کے لیے جہدوجہد کی اس لیے ٹورازم ڈپارٹمنٹ، آثار قدیمہ اور انتظامیہ کو چاہیے کہ ملک کے باقی تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ اس تاریخی قلعہ کی مرمت اور تزئین و آرائش پر کام کریں تاکہ اس کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہے۔
قلعہ میں لائبریری اور میوزم کا قیام عمل میں لایا جائے اور اس قلعے کی باقیات کو محفوظ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو اس تاریخ سے آگاہ کیا جا سکے اور یہاں پر ایک بہترین سیاحتی مقام سیاحوں کو مہیا کیا جا سکے۔
ضلع ٹانک کے اس تاریخی قلعہ سمیت پورے صوبے میں سیاحت کے حوالے سے مثبت سرگرمیاں شروع کی جائیں تاکہ ان علاقوں میں، جو پہلے سے ہی پسماندہ ہیں، روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں اور وہ سیاحتی علاقے جن کو ابھی تک ایکسپلور نہیں کیا گیا حکومتی سرپرستی اور میڈیا کی مدد سے دنیا کے سامنے لائے جا سکیں۔ یہاں مختلف گراؤنڈز، پارک، ریزیڈیشنل ایریاز اور ہوٹلز بنائے جائیں تاکہ یہاں کے لوگ معاشی طور پر خوشحال ہوں، ہماری عوام معاشی طور پر مضبوط ہو اور ملکی معیشت کو بھی اس سے فائدہ ہو۔