چائلڈ لیبر میں اضافہ: کورونا وباء، شعور کی کمی یا حکومتی بے حسی کا نتیجہ؟
عبدالستار
دنیا بھر میں 12 جون کو چائلڈ لیبر کیخلاف آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال چائلڈ لیبر کا تھیم "عالمگیر سماجی تحفظ کے ساتھ چائلڈ لیبر کا خاتمہ” ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 160 ملین سے زیادہ بچے پانچ سال کی عمر میں چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جن میں 84 ملین بچے مڈل انکم ممالک جبکہ ٹوٹل چائلڈ لیبر کے نو فیصد بچے کم آمدنی والے ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح اپر مڈل انکم ممالک کے سات فیصد بچے مزدوری کر رہے ہیں،
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3.3 ملین بچے چائیلڈ لیبرنگ میں گھرے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے بتایا کہ چائلڈ لیبر میں پچھلے بیس سالوں کے دوران کمی آ گئی تھی لیکن دو ہزار سولہ، بیس اور اکیس میں دنیا میں معاشی حالات بدل گئے اور کورونا وبا کی وجہ سے کمی میں سستی آ گئی اور کچھ ممالک میں چائلڈ لیبر زیادہ ہوا کیونکہ وبا کی وجہ سے سکول بھی بند ہو گئے، معاشی صورتحال بھی خراب ہو گئی جس کے نتیجے میں والدین کو روزگار کے مواقع نہیں مل رہے تھے اور اپنے بچوں کو مزدوری پر لگا دیا، یہ اثر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے ممالک کے بچوں پر پڑا ہے اور بچوں کے سکول جانے کا رجحان لیبر کی طرف ہو گیا۔
عمران ٹکر نے کہا کہ بچوں سے مشقت لینے میں پچھلے بیس سالوں میں پاکستان میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے جبکہ بنگلادیش، سری لنکا اور بھارت میں تعلیم کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں بہتری آئی ہے، چائلڈ لیبر میں اضافے کی ایک وجہ ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ جس ملک میں آبادی زیادہ ہو یا قدرتی آفات سے متاثرہ ہو، جہاں تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا اور جس کے پاس تعلیم کی اہمیت اور افادیت نہ ہو، جس ملک میں لیبر انسپیکشن سسٹم کمزور ہو یا سماجی تحفظ کا نظام کمزور ہو تو وہاں چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوتا ہے اور بدقسمتی سے یہ ساری کمزوریاں ہمارے ملک میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پانچ سال سے سولہ سال تک مفت تعلیم ہر بچے کا بنیادی آئینی حق ہے لیکن پاکستان میں پچھلے بیس سالوں میں آبادی میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور معاشی صورتحال بھی ٹھیک نہیں ہے جس میں ایک وجہ کرونا وبا بھی ہے، ملک میں معیاری اور فنی تعلیم کی کمی ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو ہنر سیکھنے کے لئے ورکشاپس بھیج دیتے ہیں، ٹیلرنگ اور دیگر ہنر سکھا دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں سب سے زیادہ بچوں سے مشقت زراعت کے شعبہ میں لی جاتی ہے جس کی شرح ستر فیصد سے زیادہ ہے۔
عمران ٹکر نے کہا کہ ملک کے چاروں صوبوں اور ضلعوں کی سطح پر بھی لیبر ڈیپارٹمنٹ موجود ہے لیکن لیبر انسپیکشن سسٹم کے وسائل کی کمی کی وجہ سے غیرفعال ہے، کمپلینٹ سسٹم بھی کمزور ہے اور عوامی تعاون بالکل نہیں ہے اور بدقسمتی سے عوام میں بچوں کے چائلڈ لیبر کے دوران بدنی اور جنسی تشدد کے حوالے سے شعور اور آگاہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلا اور آخری سروے انیس چھیانوے میں ہوا تھا جس میں تینتیس لاکھ بچے چائلڈ لیبر سے وابستہ پائے گئے اور خیبر پختونخوا میں گیارہ لاکھ بچے لیبر تھے۔
عمران ٹکر نے کہا کہ اس وقت سرکاری اعداد و شمار تو نہیں لیکن غیرسرکاری اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک کروڑکے لگ بھگ بچے چائلڈ لیبر ہیں اور بینظیر انکم سپورٹ کے سروے جو نومبر 2021 میں ہوا تھا اس کے مطابق خیبر پختونخوا میں 47 لاکھ بچے سکول کی عمر میں سکول نہیں جاتے اور ایسے بارہ فیصد بچے چائلڈ لیبر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سال دو ہزار سترہ سے چائلڈ لیبر کے حوالے سےحکومتی سروے شروع کیا گیا ہے جس کے لئے بجٹ بھی جاری ہو چکا ہے لیکن ابھی تک مکمل نہیں ہوا جبکہ لیبرڈیپارٹمنٹ کے مطابق یہ سروے رواں سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے آفیسر بلال خان نے بتایا کہ جہاں پر بھی چائلڈ لیبر کی نشاندہی کی جاتی ہے تو اس میں ہم متعلقہ سٹیک ہولڈر کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں، اگر اس کی تعلیم کا مسئلہ ہو تو محکمہ ایجوکیشن کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں کینوکہ ملک میں میٹرک تک مفت تعیم دینا ہر بچے کا حق ہے اور اگر صحت سے متعلق مسئلہ ہو تو محکمہ صحت سے رابطہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض بچے صبح سکول جاتے اور دوپہر کو کام کرتے ہیں جبکہ بعض بچے شام کے وقت کام کرتے ہیں، ہم بچوں کے والدین سے بھی رابطہ کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ ان کی ضروریات کیا ہیں، اگر ان کے والدین کو ہنر کی ضرورت ہو تاکہ روزگار کا مسئلہ حل ہو جائے تو اس کا بھی محکمہ بندوبست کرتا ہے۔
بلال خان نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن بچوں کے تحفظ کے لئے کام کرتا ہے اور جہاں پر بچوں پر جسمانی یا جنسی تشدد ہوتا ہے تو شکایت کی صورت میں محکمہ بچے کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائلڈ لیبر میں اضافہ ملک میں حالیہ معاشی صورتحال کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے مہنگائی اور بےروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور بچوں کا مزدوری کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔
بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی خاتون وکیل خوشنود ذاکراللہ نے بتایا کہ چائلڈ لیبر اور جنسی تشدد ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور یہ بہت کم کیسز میں ہوتا ہے کہ سکول جانے والے بچے جنسی تشدد کا شکار ہوئے ہوں یا جن کو اپنے والدین کی توجہ حاصل ہو، اس طرح جوینائل کیسز میں بھی سٹریٹ چلڈرن ملوث ہوتے ہیں۔
خوشنود ایڈوکیٹ نے کہا کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں جتنا اضافہ ہو گا اتنا ہی اضافہ چائلڈ لیبر میں بھی ہو گا، ملک میں بچوں کے لئے میرا گھر منصوبہ میں چند سو بچے داخل کئے گئے، نجی ادارے اتنے نہیں کہ سٹریٹ چلڈرن کی ضرورت پوری ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی بچیاں جو گھروں کے اندر مزدوری کرتی ہیں اور بچے بچیاں جو چوکوں میں کھڑے ہو کر بھیک مانگتے ہیں ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
خاتون وکیل نے کہا کہ ملک میں چائلڈ پروٹیکشن لاء بھی موجود ہے اور چائلڈ لیبر ایبیوز اور چائلد ایبویز لاء بھی موجود ہے لیکن بدقسمتی کے ساتھ احساس اور قانون کی عملداری نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ادرے بھی بے حسی کا شکار ہیں اور بہت سے کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کون سا کمیشن یا ادراہ بچوں کے لئے کام کرتا ہے اور فنکشنل ہے کہ نہیں۔
خوشنوداکراللہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ چائلڈ لیبر میں کمی کے لئے ہمارے سرکاری ادراوں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا اور عام لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ہو گا کہ بچوں کو تعلیم دلوائیں اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کو میٹرک تک تعلیم مفت دے، ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تب ہی ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ہو گا کیونکہ اکثر جو لوگ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرتے ہیں انہی کے گھر میں بچیاں مزدوری کرتی ہیں، چائلڈ لیبر میں بچیوں کی نسبت لڑکوں کی شرح ہمارے معاشرے میں زیادہ ہے کیونکہ ہم اکثر لڑکیاں گھروں سے باہر نہیں بھیجتے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ چائلڈ لیبر کو کسی نہ کسی طریقے سے بنیادی تعلیم دینے کا بندوبست کیا جائے اور یہ ممکن ہے اگر احساس پیدا ہو جائے اور ادارے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔