لائف سٹائل

وفاقی بجٹ، ضم اضلاع اور اک نئی بحث

محمد فہیم

وفاق میں مسلم لیگ کی مخلوط حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کر دیا۔ بجٹ سے چند روز قبل جس تیزی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا اس کے بعد سب کو معلوم تھا کہ بجٹ عوام دوست ہی ہو گا تاہم اس بجٹ نے نئی بحث چھیڑ دی ہے اور یہ بحث خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے حوالے سے ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت انضمام کے دن سے اب تک یہ مطالبہ لئے بیٹھی ہے کہ قبائلی اضلاع کی ترقی کیلئے تمام صوبے اور وفاق خیبر پختونخوا کا ساتھ دیں تاہم درحقیقت یہ آواز اتنی دھیمی تھی کہ ساتھ کھڑے فرد کو بھی سنائی نہیں دیتی تھی اور اس کی اصل وجہ عمران خان تھے لیکن اب عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے اور خیبر پختونخوا حکومت نے اس آواز میں شدت لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کا دعویٰ ہے کہ وفاق نے قبائلی اضلاع کے بجٹ میں 20 ارب روپے سے زائد کی کمی کر دی ہے جس کی وجہ سے قبائل کے امور شدید حد تک متاثر ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ان میں سب سے بڑا کٹ بے گھر قبائلیوں کیلئے رکھی گئی رقم کا ہے۔ رواں برس اس مد میں 17 ارب روپے رکھے گئے تھے اور آئندہ برس کیلئے بجٹ میں اس مد میں ایک پائی بھی مختص نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے قبائلیوں کی واپس اپنے گھروں میں بحالی کا عمل شدید حد تک متاثر ہو سکتا ہے۔

قبائلیوں کی واپسی کا عمل کہاں تک پہنچا؟

دہشت گردی اور بدامنی کے باعث قبائلی اضلاع کے لاکھوں افراد اپنے ہی ملک میں بے سروسامانی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اورکزئی سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن غزن جمال کہتے ہیں کہ اب تک ان کے ضلع کی سب سے بڑی قوم ماموند کی واپسی کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے اور اس کیلئے مزید وقت درکار ہے، اگر وفاقی کی جانب سے سیاست کی گئی تو یہ قبائلی اپنے گھر کیسے جائیں گے۔

غزن جمال کے مطابق جنوبی و شمالی وزیرستان اور دیگر اضلاع میں بھی کئی قبیلوں کی واپسی تاحال جاری ہے اور وفاق کی جانب سے اس فنڈ کو ختم کرنے سے قبائلیوں کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔

خیبر سے منتخب رکن اسمبلی شفیق آفریدی کہتے ہیں کہ قبائلیوں نے اس ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں اور آج ان کی قربانیوں کا یہ صلہ دیا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان کے اپنے حلقے کے قبائلی بھی تاحال بے گھر ہیں اور ان کی واپسی کیلئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، وفاق کو اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے، ایسا ممکن نہیں ہے کہ وفاق قبائل کو سیاست کی نذر کر دے، مجبوراً قبائل نکلیں گے اور اپنا حق حاصل کرنے کیلئے احتجاج کا راستہ پنائیں گے۔

قبائل کے فنڈز کا مسئلہ

خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کے دور میں قبائل کا بجٹ 40 ارب سے ساڑھے تین سالوں میں 131 ارب تک پہنچ گیا تاہم نئی حکومت نے اس میں کمی کر دی ہے اور اس بجٹ کوآئندہ برس کیلئے 110 ارب کر دیا ہے جو 20 ارب سے زائد کی کٹوتی ہے۔ تیمور جھگڑا کے مطابق اس کمی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، خیبر پختونخوا حکومت اپنے حصے سے پہلے ہی 10 ارب روپے اضافی دے رہی ہے ایسے میں اس صوبے پر مزید بوجھ ڈالنا زیادتی ہے، قبائلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

تیمور جھگڑا کہتے ہیں کہ اس کٹوتی کو پورا کرنے کیلئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے اپیل کرتے ہیں لیکن اگر وہ قبائل کو حق نہیں دیں گے تو مجبوراً ہمیں دیگر آپشنز پر سوچنا پڑے گا۔ صوبائی حکومت کے مطابق جاری پروگرام کیلئے رواں برس 60 ارب روکھے گئے ہیں اور آئندہ برس بھی اتنی ہی رقم رکھی گئی ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے، جاری اخراجات تنخواہوں میں اضافہ اور دیگر اخراجات کی وجہ سے بڑھے ہیں لہٰذا اس مد میں کم سے کم 10 ارب اضافہ درکار ہے۔

قبائل کے لئے وفاقی بجٹ میں کیا ہے؟

وفاقی حکومت نے مالی سال 23-2022 کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں قبائلی اضلاع کیلئے 50 ارب روپے گرانٹ کے طور پر تجویز کئے ہیں جبکہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے مختص رقم اس کے علاوہ ہے۔

وفاقی حکومت کے مالی سال 23-2022 پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت خیبر پختونخوا کیلئے صوبائی پیکیج کے تحت 52 ارب 68 کروڑ 22 لاکھ 70 ہزار روپے رکھے گئے ہیں جس میں 20 ارب ضم اضلاع کیلئے، 30 ارب قبائلی اضلاع کے 10 سالہ پروگرام کے تحت جبکہ ڈبوری اورکزئی میں سڑک کی تعمیر کیلئے 20 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

اسی طرح مختلف وزارتوں کی جانب سے قبائلی علاقوں میں جاری اور نئے ترقیاتی منصوبوں کے تحت بھی رقم مختص کی گئی ہے جس میں مہمنڈ ڈیم کیلئے 12 ارب 6 کروڑ، خیبر پاس اکنامک کاریڈور کیلئے 2 ارب 40 کروڑ، شمالی وزیرستان کے کرم تنگی ڈیم کیلئے ایک ارب، کرم تنگی کی اپ گریڈیشن کی فیزبلٹی کیلئے 5 کروڑ، فاٹا یونیورسٹی کیلئے 41 کروڑ 77 لاکھ 33 ہزار، پاک درہ خیبر میں ایف سی کے رہائشی منصوبے کیلئے 36 کروڑ، شمالی وزیرستان میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے 10 کروڑ، ضم اضلاع میں ہیومن رائٹس کے دفاتر کیلئے ایک کروڑ 93 لاکھ ایک ہزار اور لنڈی کوتل میں ٹرانزٹ رہائشی سہولت کی فراہمی کیلئے 10 کروڑ مختص کئے گئے ہیں۔

وفاقی ترقیاتی پروگرام میں امبریلا سکیمیں (وہ سکیمیں جو بحیثیت مجموعی ملک بھر میں شروع کی جائیں گی) الگ سے ہیں اور قبائلی اضلاع کو ان سکیموں میں بھی ضرورت کے مطابق حصہ دیا جائے  گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button