”مشین چلے گی تو کام ہو گا، کام ہو گا تو دو چار پیسے آئیں گے“
شاہد خان
پشاور کی سرکلر روڈ پر مستری کی دکان میں مدثر اقبال نامی ایک بزرگ گہری سوچ میں بیٹھے تھے۔ اپنے دوسرے پارٹنر کے ساتھ بیٹھے دکان سے باہر کی طرف دیکھ رہے تھے اور کافی پریشان بھی دکھائی دے رہے تھے۔ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ بجلی کی طویل اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث کام ٹھپ پڑا ہے، گاہک بھی انتظار کر رہا ہے اور دن کا زیادہ تر حصہ بھی گزر چکا ہے۔
پشاور کے رہائشی 65 سالہ مدثر اقبال گزشتہ پانچ دہائیوں سے مکینک (مستری) کا کام کر رہے ہیں یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ مدثر اقبال مکینیکل انجینئر ہیں، کام سیکھنے کے بعد کبھی ایک دکان پر تو کبھی دوسری دکان پر کاریگر کے طور پر مستری کا کام کرتے رہے۔
15 سال قبل مدثر اقبال نے دو مزید ساتھیوں کے ساتھ مل کر کر پشاور کی سرکلر روڈ پر ایک دکان کرایے پر حاصل کی۔ مدثر اقبال کا زیادہ تر کام مشینری کے ذریعے ہوتا ہے لیکن ان کی دکان میں موجود تمام مشینیں زیادہ تر بند رہتی ہیں کیونکہ سرکلر روڈ سمیت پشاور کے شہری علاقوں میں بجلی لوڈشیڈنگ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
مدثر اقبال نے بات چیت کے دوران بتایا کہ رمضان المبارک کے بعد سے بجلی لوڈشیڈنگ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ساڑھے 3 گھنٹے لوڈشیڈنگ کے احکامات سے امیدیں وابستہ تھیں لیکن ان کے احکامات شاید پشاور کے لئے نہیں تھے کیونکہ یہاں پر گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے، گاہک کام کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور اکثر کام بروقت نہ ہونے پر تلخ کلامی بھی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت سرکلر روڈ پر 15 گھنٹے سے زائد بجلی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ٹرپنگ کے نام پر بجلی کی آنکھ مچولی بھی جاری رہتی ہے جس کے باعث کاروبار کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے، چھوٹی مشین چلانے کے لئے پہلے جنریٹر وغیرہ استعمال کر لیتے تھے لیکن پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جنریٹر بھی استعمال نہیں کر سکتے۔
مدثر اقبال نے بتایا کہ ان کا زیادہ تر کام مشینری کے ذریعے ہوتا ہے، ”مشین چلے گی تو کام ہو گا اور کام ہو گا تو دوچار پیسے آئیں گے، پیسے آئیں گے تو اخراجات پورے ہوں گے، اس کے علاوہ بجلی کا بل، دکان کا کرایہ اور ساتھ میں گھر کا بھی کرایہ دینا پڑتا ہے، گزشتہ 15سال کے دوران بجلی کی وجہ سے ایسے حالات نہیں دیکھے، دکان میں شاگرد بھی نہیں رکھ سکتے کیونکہ شاگرد کا معاوضہ کہاں سے آئے گا؟”
انہوں نے مزید بتایا کہ غیراعلانیہ طویل لوڈشیدنگ کی وجہ سے کاروبار سے دکان و مکان کا کرایہ اور دکان و مکان کے بجلی بل ادا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے اوپر سے موجودہ مہنگائی کی لہر کے باعث گھریلو اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے، امید تو ہے کہ بجلی لوڈشیڈنگ میں کمی لانے کے لئے حکومت ٹھوس اقدامات کرے گی کیونکہ اس ایک چھوٹی سی دکان سے تین گھرانے براہ راست وابستہ ہیں۔
پشاور کی سرکلر روڈ پر رکشہ ورکشاپ اور دیگر مستریوں کی 200 سے زائد دکانیں ہیں جن میں بیشتر دکانوں میں بجلی سے چلنی والی مشینیں ہیں اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کام ٹھپ رہتا ہے۔ ان دکانوں میں بعض مستریوں کے ساتھ شاگرد اور کاریگر بھی کام کرتے ہیں جن کو معاوضہ بھی دینا پڑتا ہے لیکن موجودہ حالات میں تو دکان کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے۔
بجلی لوڈشیڈنگ اور کام میں تاخیر کے حوالے سے دکان میں موجود ایک رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ صبح سے اپنا رکشہ ٹھیک کروانے کے لئے لایا ہے لیکن بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کام اٹکا ہوا ہے، آدھا دن گزر گیا ہے رکشہ بھی ٹھیک نہیں ہوا اور مزدوری بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ فکر اس بات کی ہے کہ اگر رکشہ ٹھیک نہ ہوا تو مزدوری کیسے کریں گے؟ رکشے کے مالک کا معاوضہ اور گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟