نازیبا ویڈیوز اور تصویر: اسماء اخلاص کیا کہتی ہیں؟
سدرا آیان
سوشل میڈیا واحد ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس تک ہر کسی کی رسائی انتہائی آسانی سے ممکن ہے جس پر ہر انسان بغیر کسی اصول و قواعد کے اپنی مرضی کا مواد (content) بناتے ہیں۔
ایک طرف اگر سوشل میڈیا پیسے اور نام کمانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے تو دوسری طرف کسی کی عزت اچھالنے اور بدنام کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے اور اس پلیٹ فارم پر عورتیں بہت کم ہیں جیسے اگر ہم فیس بک کی بات کریں تو ہر لڑکی کے نام والی آئی ڈی کے پیچھے ٪95 لڑکے ہوتے ہیں جبکہ کچھ لڑکیاں اپنے اکاؤنٹس لڑکوں کے نام سے بناتی ہیں لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں لڑکوں کے نام سے اکاؤنٹس بناتی ہیں تو انھوں نے کہا کہ پھر لوگ انھیں تنگ نہیں کرتے اس لیے وہ سوشل میڈیا پر اپنی شناخت چھپائے پھرتی ہیں۔ لیکن پھر ہمارے پشتون معاشرے میں بہت ہی کم لڑکیاں ایسی ہیں جو اصلی اکاؤنٹ استعمال کرتی ہیں اور اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر ڈالتی ہیں جس پر کچھ لوگ انہیں پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسلسل ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
ایسے ہی اگر ہم نورہ احساس اور آسماء اخلاص کی مثال لے لیں جو پردے میں رہ کر اپنی ثقافت اور روایات کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہیں، سوشل میڈیا پر ایکٹو رہتی ہیں مگر پھر بھی ان کے مخالفین گھٹیا حرکتوں سے باز نہیں آتے۔
کچھ عرصہ قبل نورہ احساس کی بغیر نقاب کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی گئیں اور اس کے بعد اب اس رمضان المبارک کے مہینے میں آسماء اخلاص کی تصویر انٹرنیٹ پر ڈال دی گئیں جس کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں گردش کرنے لگیں کیونکہ تصویر کے ساتھ ساتھ ان کے آفیشل پیج سے کچھ غیراخلاقی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کر دی گئی تھیں۔
بعد میں لوگوں نے یہ بات پھیلا دی کہ وہ اسما ہی کی اپنی نازیبا ویڈیوز تھیں لیکن اسماء اخلاص کا کہنا ہے کہ ان کا آفیشل فیس بک پیج ہیک ہو گیا تھا، رمضان سے تین چار مہینے پہلے ان کا موبائل گم ہو گیا تھا تو اس میں اسماء کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کھلے ہوئے تھے، شائد کسی نے چھپ کر ان کی تصویر بنائی اور ان کے موبائل جو کہ تین چار مہینے پہلے گم ہو گیا تھا اس سے اپ لوڈ کی گئی۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ تین چار مہینے پہلے اسماء سے موبائل کھو گیا تھا اور اب رمضان کی پچیس چھبیس تاریخ کو ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔
اسماء اخلاص کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کام میں مصروف تھیں اور کسی نے چھپ کر ان کی تصویر بنائی اور انہیں کانوں کان خبر نہ ہوئی اور پھر چند دن بعد فجر کے وقت ان کے پیج سے کچھ نازیبا وڈیوز اور ان کی تصویر اپ لوڈ کی گئی۔
عموماً فجر پڑھنے کے بعد لوگ سو جاتے ہیں تب اسماء خود بھی سو رہی تھیں۔ ان کے دوست انہیں کالز کرتے رہے لیکن وہ سوتی رہیں، پھر جب وہ اٹھ گئیں اور انہیں اس واقعے کا علم ہوا تو کسی سے کانٹیکٹ کر کے اپنا پیج ریکوَر کر لیا لیکن تب تک آگ جنگل میں پھیل چکی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ چونکہ زیادہ لوگ سو رہے تھے اس وقت اس لیے ان کی سٹوری زیادہ لوگوں نے نہیں دیکھی لیکن جنھوں نے دیکھی انھوں نے سکرین شاٹس لے کر وائرل کیے، لوگ پوسٹس اور کمنسٹ میں سنسنی پھیلانے کے لیے یہ بھی کہتے رہے کہ ہمارے پاس وہ ویڈیوز موجود ہیں لیکن درحقیقت صرف ایک فوٹو تھی جس میں وہ آفس میں بیٹھ کر اپنا کام کر رہی تھیں۔
اس واقعے پر اسماء اخلاص بہت افسردہ تھیں کیونکہ وہ پردے میں رہ کر کام کرنا چاہ رہی تھیں لیکن اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے پردہ کروانے والے لوگوں نے ان کے پردے کا خیال نہیں رکھا، ”مجھے یہ چیز سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمارے لوگ آخر چاہتے کیا ہیں، جو لوگ پردہ نہیں کرتے دن رات ان کے خلاف باتیں کرتے ہیں، انھیں پردہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن جو لوگ پردہ کرتے ہیں ان کی تصاویر ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والی پشتو شاعرہ اسماء اخلاص نے اسلامیہ کالج سے پشتو میں بی ایس کیا اور سماجی کارکن کی حیثیت سے انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ اس واقعے نے انیں دہلا کر رکھ دیا لیکن اسکا حوصلہ ٹوٹنے والا نہیں۔ وہ بہت سی تنقید برداشت کرتے یہاں اس مقام تک پہنچ چکی ہیں اور ان کے مطابق آگے بھی وہ ایسے ہی اپنا کام جاری رکھیں گی۔
ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں صرف ٪22 خواتین سوشل میڈیا استعمال کرتی ہیں، لہذا منسلک اداروں کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو سیکیور بنائیں، اور ایسے اقدام کیے جائیں کہ ہر انسان کا اپنے نام سے ایک ہی اکاؤنٹ بن سکے اور فیک اکاؤنٹس بنانے والے یا اکاؤنٹس ہیک کرنے والے اور بلیک میلنگ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی یقینی بنائی جائے تاکہ ہماری خواتین بھی سوشل میڈیا پر آ سکیں اور اپنی سرگرمیاں شیئر کر سکیں۔