لائف سٹائل

بلقیس ایدھی: اک عظیم ماں جن کی خدمات پوری دنیا یاد رکھے گی

عیشا صائمہ

بلقیس بانو ایدھی عبد الستار ایدھی کی بیوہ، ایک نرس اور پاکستان میں سب سے زیادہ فعال مخیر حضرات میں سے ایک تھیں۔ ان کی عرفیت مادر پاکستان تھی۔ وہ 14 اگست 1947ء میں بانٹوا میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد والدین کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئیں۔

ایک نیوز ویب سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بلقیس ایدھی کا کہنا تھا کہ انہوں نے محض 16 سال کی عمر میں ایدھی صاحب کے قائم کردہ نرسنگ ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور نرسنگ کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ ان کی محنت، لگن اور جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب نے نرسنگ کے اس ادارے کی ذمہ داریاں انہیں سونپ دیں۔ بلقیس ایدھی کے مطابق، ”اس دور میں نرسنگ کے شعبے کی طرف خواتین کا رجحان بہت کم تھا۔” انہوں نے اس ادارے میں دو برس تک جانفشانی اور انتہائی لگن کے ساتھ کام کیا اور یہی محنت اور جذبہ ہی عبد الستار ایدھی کے دل میں بھی گھر کر گیا۔ یوں 1966ء میں بلقیس بانو، عبدالستار ایدھی کی رفیق حیات بن گئیں۔

شادی کے بعد ان دونوں سماجی شخصیات نے بہت سے نئے فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ بے گھر ہونے والی خواتین کو ادارے میں جگہ دینا ہو یا ایدھی میٹرنٹی ہوم میں زچہ و بچہ کی دیکھ بھال، خواتین سے متعلق اس طرح کے تمام فلاحی کاموں کی نگرانی بلقیس ایدھی کرنے لگیں۔

بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن

ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں سے متعلق فلاحی کاموں کے لیے بلقیس ایدھی نے بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی بھی بنیاد رکھی۔ یہ فاؤنڈیشن لاوارث بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر لاوارث اور بے گھر لڑکیوں کی شادیاں کروانے کی ذمہ داری انجام دیتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا کام بلقیس ایدھی اپنی دو بیٹیوں اور الگ عملے کے ساتھ دیکھتی رہیں۔

”ناجائز بچوں” کو قتل سے بچانے کے لیے جھولا پراجیکٹ

بلقیس ایدھی کے نمایاں ترین فلاحی کاموں میں سے ایک ’ناجائز‘ بچوں کی زندگی بچانے کے لیے شروع کیا جانے والا جھولا پراجیکٹ ہے۔ پاکستان بھر میں قائم ایدھی فاؤنڈیشن کے ہر مرکز کے باہر ایک جھولا رکھا ہے جس پر لکھا ہے ”بچوں کو قتل نہ کریں، جھولے میں ڈال دیں۔” ان جھولوں میں لوگ ایسے بچوں کو خاموشی سے ڈال جاتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے خاندان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے۔ ان بچوں کو ایدھی سینٹر میں پالا پوسا جاتا ہے۔ پھر ایسے بچوں کو بے اولاد والدین کو دینے کے کام کی نگرانی بھی بلقیس ایدھی کی ذمہ داری تھی۔

بلقیس ایدھی کے مطابق، ”اب تک تقریبا 16000 لاوارث بچوں کو بے اولاد والدین کے حوالے کیا جا چکا ہے‘‘ صرف یہی نہیں بلکہ کئی ہزار خواتین کو پناہ دینے، انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور کسی وجہ سے اپنے گھر سے ناراض ہو کر آنے والی خواتین کی ان کے خاندان کے ساتھ صلح کرا کے انہیں ان کے گھروں تک پہنچانے جیسے کام بھی بلقیس ایدھی انجام دیتی رہیں۔

مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء

بلقیس ایدھی نے پڑوسی ملک بھارت سے تعلق رکھنے والی سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم لڑکی گیتا کی 15 برس تک دیکھ بھال کی۔ گیتا 10 برس کی عمر میں غلطی سے پاکستان پہنچ گئی تھی جسے ایدھی سینٹر کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ بلقیس ایدھی کی طرف سے گیتا کا مذہبی تشخص برقرار رکھنے اور اسے اُس کے ملک واپس بھیجنے کے لیے انتھک کوششوں کا اعتراف بھارت کی طرف سے بھی کیا گیا ہے۔ اسی اعتراف کے طور پر بھارت نے بلقیس ایدھی کو مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء سے نوازا ہے۔

امر گرڑو بتاتے ہیں کہ ”میری ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ وہ بلا کی چہرہ شناس تھیں۔ لوگوں کے چہرے پڑھ کر وہ ان کی دل کی بات بتا دیتی تھیں۔” بقول امر: ‘مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2015 میں فرانسیسی ٹیلی وژن کا ایک صحافی کراچی آیا۔ وہ پاکستان میں نومولود بچوں کے قتل کے حوالے سے ایک دستاویزی فلم پر کام کر رہا تھا۔ میں ان کا لوکل فکسر تھا۔ اس ویڈیو کے لیے ہمیں کئی دن تک بلقیس ایدھی کے پاس آنا جانا تھا، اس لیے میں نے فرانسیسی صحافی کے آنے سے پہلے بلقیس صاحبہ سے مل کر انہیں بتایا کہ ایسی ایک ڈاکیومینٹری ہے، جس میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ ان کی ایک عادت تھی کہ وہ آپ کی بات سن کر سیدھا جواب دینے کے بجائے آپ سے کوئی اور سوال کرتی تھیں۔ جس کا مطلب ہوتا تھا کہ انہیں آپ کی بات میں دلچسپی ہے اور وہ آپ کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔ جب فرانسیسی صحافی کراچی آئے تو میں نے ان سے کہا کہ کام شروع کرنے سے پہلے آپ بلقیس صاحبہ سے ملیں اور ان کو تفصیل سے بتائیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور ان سے تعاون کی درخواست بھی کریں۔ تو وہ مان گئے۔ ہم کھارادر میں ایدھی مرکز پہنچ گئے۔ ان کے آفس میں کچھ دیر انتظار کے بعد بلقیس صاحبہ بھی آ گئیں۔’

بقول امر: ‘فرانسیسی صحافی نے انہیں بتانا شروع کیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں مگر بلقیس صحافی کو غور سے دیکھ رہی تھیں۔ جب ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے ترجمہ کیا۔ جس پر بلقیس صاحبہ نے مجھے کہا کہ ان سے پوچھو کہ کیا آپ کو غصہ بہت آتا ہے؟ میں نے جب ان سے پوچھا تو صحافی چونک گیا، صحافی نے مجھ سے پوچھا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے؟ میں نے ان کا سوال بلقیس صاحبہ سے پوچھا تو انہوں نے پھر کہا کہ اس سے پوچھو کہ غصہ آتا ہے یا نہیں؟ خیر صحافی آخرکار مان گیا کہ ان کو غصہ آتا ہے۔ بلقیس ایدھی نے کہا کہ آپ غصے میں اکثر اپنی بیوی کو بھی مارتے ہوں گے۔ اس پر فرانسیسی صحافی ہکا بکا رہا گیا۔ اس کی آنکھیں لال ہو گئیں اور چہرہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ وہ صحافی مجھ سے بار بار پوچھتا رہا کہ ان کو کیسے پتہ چلا تو میں نے اسے بتایا کہ وہ لوگوں کے چہرے پڑھ کر ان کے بارے میں بتا دیتی ہیں۔ آپ ایک عظیم ماں تھیں جن کی خدمات کو پوری دنیا یاد رکھے گی۔’

ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے آج تک اپنا گھر نہیں بنایا۔ بلقیس ایدھی اپنی شادی کے پہلے چار سے پانچ سال تک ڈسپنسری کی چھت پر رہا کرتی تھیں جب کہ بچوں کی پیدائش کے بعد وہ اپنی والدہ کے گھر پر رہنے لگی تھیں۔ ان کی والدہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں جب کہ بلقیس روزانہ اپنی والدہ کے گھر سے ایدھی سینٹر کے کئی چکر لگایا کرتی تھیں۔

وہ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی سربراہ تھیں اور اپنے شوہر کے ساتھ انہوں نے خدمات عامہ کے لیے 1986ء رومن میگسیسی اعزاز (Ramon Magsaysay Award) حاصل کیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتياز سے نوازا تھا۔ بھارتی لڑکی گیتا کی دیکھ بھال کرنے پر بھارت نے انہیں مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء سے نوازا تھا۔

قوم کی یہ عظیم ماں 15 اپریل 2022ء کو بعمر 75 سال کراچی میں مختصر علالت کے بعد وفات پا گئیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button