لائف سٹائل

سوہن حلوہ۔۔۔ ڈیرہ کی اس مشہور سوغات کا یہ نام کیسے پڑا؟

سعد سہیل

سوہن حلوہ یوں تو کئی علاقوں میں بنایا جاتا ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان کا سوہن حلوہ کا لذت اور ذائقے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ 150 سالہ طویل تاریخ رکھنے والا یہ سوہن حلوہ تحفے اور سوغات کے علاہ مذھبی اور سیاسی پس منظر بھی رکھتا ہے۔

جب بھی ہم ڈی آئی خان سے باہر دوستوں اور قریبی عزیزوں سے ملنے جائیں تو ان کے لیے ڈیرہ کی سوغات سوہن حلوہ لے کر جاتے ہیں اور فرمائش بھی یہی ہوتی ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان جب 26-1825 میں اس موجودہ جگہ تعمیر ہوا تو اس وقت اس کی آبادی تقریباً 35 ہزار نفوس پر مشتمل تھی جس میں 18 ہزار مسلمان، 13 ہزار ہندو اور دو ہزار سکھ عیسائی وغیرہ شامل تھے۔ شہر کے اردگرد گھنے جنگلات تھے تو مغرب کی جانب 14 کلومیٹر طویل دریائے سندھ تھا۔ لوگ جو جانور پالتے اکثر ان کا چارہ مفت ملتا اس لیے ڈیرہ میں خالص دودھ بڑی وافر مقدار میں موجود تھا۔ مسلمان تو دودھ بیچنا اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ یہ نور ہے اور ضرورت مندوں کو مفت دیتے مگر ہندو دودھ بیچا کرتے تھے۔ پھر ان کی بڑی بڑی مٹھائی کی دکانیں تھیں اور ان کی مٹھائی پورے برصغیر میں مشھور تھی۔

دودھ کی فراوانی کی وجہ سے مٹھائی کی نئی ورائٹیاں تخلیق کی جاتی تھیں۔ حاجی انصر عباسی قدیمی سوہن حلوہ والے نے بتایا کہ سوہن حلوہ کے بارے میں ویسے تو مختلف کہانیاں مشہور ہوئی ہیں: ایک شخص جس کا نام سوہن لال تھا اس نے سب سے پہلے دودھ کا کھویا بنا کر اس میں گندم کی خشک کونپلیں جو سنہری رنگ کی وجہ سے سونی کہلاتی تھیں ملا کر حلوہ تیار کیا جو بہت پسند کیا گیا اور اس ڈیرہ وال سوہن لال کے نام سے سوہن حلوہ مشھور ہوا۔ آج کل ڈیرہ میں کئی خواتین گندم کو گھر میں اگاتی ہیں جب وہ کونپلیں کچھ اگ آتی ہیں تو انہیں توڑ کر سکھایا جاتا ہے اور کوٹ چھانٹ کر سونی بنتی جو حلوایوں کو مہیا کی جاتی ہے اور غریب خواتین کے روزگار کا یہی ذریعہ ہے۔ گندم کی یہ کونپلیں منرل اور وٹامن سے بھرپور الکلائیڈ ہیں اور مغربی ملکوں میں اس کا جوس بہت مقبول ہے، اور طریقوں سے بھی استعمال ہوتا ہے۔

تو ڈیرہ وال سوہن لال کا تیار کردہ حلوہ۔۔۔ سوہن حلوہ کہلایا اور پھر یہ فارمولا دور دور تک پھیل گیا اور اب اس میں نئی ورائٹیوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔

انصر عباس نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں یہ کام سب سے پہلے میرے دادا اللہ بخش نے شروع کیا، ان کی والدہ عائشہ بی بی جو نابینہ تھیں وہ ان کی مدد کیا کرتی تھیں، باہر دودھ کی دکان تھی، انہوں نے اس حلوے کے لئے بہت سے تجربات کیے اور محنت کی کہ سردیوں میں اس کا کیا اثر ہوتا ہے اور گرمیوں میں اس کا کیا اثر ہوتا ہے، کون کون سا وزن اس میں ڈالیں تو یہ صحیح رہتا ہے، بزرگوں کے وقت ایک خستہ حلوہ ہی بنایا کرتے تھے مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ اس میں متعدد اقسام متعارف کرائی جا چکی ہیں جن میں خشخاش حلوہ، مونگ پھلی حلوہ، کوکونٹ حلوہ، شوگرفری حلوہ، بادام حلوہ، اخروٹ حلوہ دیس گھی کا حلوہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

سوہن حلوے کی تیاری میں مختلف اجزاء درکار ہوتے ہیں جن میں دودھ، کھویا، سونی، میدہ، چینی، اور گھی کا نشاستہ تیار کر کے حلوہ بنایا جاتا ہے جب کہ خشک میوہ جات سے تیار کردہ حلوہ بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی سیکڑوں دکانوں پر منوں کے حساب سے تیار ہو کر اندرون اور بیرون ملک فروخت ہوتا ہے، ایک حلوے کی کڑھائی 20 کلو کی ہوتی ہے، جسے پکانے میں دو گھنٹے لگتے ہیں جبکہ 6 سے 7 کلو کی کڑھائی کو بنانے کے لئے ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔

مختلف دکانداروں سے بات کرتے ہوئے ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کو کن کن مشکلات کا سامنا ہے تو بیشتر دکانداروں کا جواب یہی تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ گیس کی عدم دستیابی ہے، لکڑیوں پہ پکانے سے اس پر لاگت کافی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ گھی اور چینی کا مہنگا ہونا بھی اک مسئلہ ہے، جو چینی پہلے 60 رپے کی تھی اب 110 روپے کی مل رہی ہے اور اچھا گھی جو پہلے 250 کا پڑتا تھا اب 450 تک پہنچ چکا ہے۔ جبکہ یہاں پر وہ ریٹس نہیں ملتے جس طرح ملتان میں ہیں، ڈی آئی خان میں فی کلو 340 سے شروع ہو کر 750 تک ریٹ ہے جبکہ ملتان میں یہی حلوہ 500 سے شروع ہوتا اور 900 تک فی کلو سیل ہوتا ہے۔

سوہن حلوہ ڈیرہ اور ملتان کی سوغات ہے مگر دونوں شہروں میں ریٹس کا واضح فرق ہے، اگر ڈیرہ اور ملتان حلوے کے ریٹس میں یکسانیت لائی جائے تو ڈیرہ میں اس کے روزگار سے وابستہ لوگوں کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو گی بلکہ اس کا معیار مزید بہتر ہونے سے یہ بیرون ملک درآمد ہونے کے قابل بنے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر حکومتی سطح پر حلوے کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں تو اس صنعت سے وابستہ یہاں کے شہری بھی بہترین ذریعہ مبادلہ کما سکتے ہیں، ساتھ ساتھ اس سے ملک بھی معاشی لحاظ سے ترقی کرے گا۔

حکومت خیبر پختونخوا اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر حلوے کی صنعت کو پروان چڑھانے کے لئے نمائش/ایگزیبیشن کا اگر اہتمام کیا جائے، اور حلوے سے وابستہ کاروباری حضرات کو اگر حلوہ ایکسپورٹ کرنے کی ٹریننگز دی جائیں تو یقیناً اس کاروبار سے وابستہ افراد کو اس کے ثمرات ملیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button