پاکستانی میڈیا کی ترجیحات، نئے افغانوں کو درکار معلومات اور ان کی توقعات
شمائلہ آفریدی
”میرا نام حسین خان ہے، ہمیں یہ معلومات درکار ہیں کہ افغانستان سے کون کون سے مریض آتے اور کن کن مریضوں کو اِس طرف آںے کی اجازت دی جاتی ہے۔”
”میرا نام بسمینہ ے اور ہمیں پاکستانی میڈیا سے یہ امید ہے کہ وہ ایسی رپورٹس/خبریں دیں جو افغانوں کو تعلیم کے حوالے سے معاون ثابت ہوں۔”
”میرا نام سعدیہ ہے، ہم پاکستان کے مین سریم میڈیا سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ یو این ایچ سی آر کے موجودہ اقدامات یا مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر خبریں دی جائیں گی۔”
”نظام الدین شینواری ہوں، پاکستانی میڈیا سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ افغان مہاجرین کے مسائل کو زیادہ توجہ دی جائے۔”
میرا نام سلسلہ ہے اور پاکستانی میڈیا سے ہمیں یہ توقع ہے کہ بارڈر کی صورتحال کے حوالے سے روزمرہ بنیادوں پر خبریں شائع کی جائیں۔”
یہ آوازیں اور آراء پشاور میں پہلے سے مقیم یا اب نئے آنے والے افغانوں کی ہیں جن کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا سے ان کی معلومات کی پیاس بجھتی ہے نا ہی انہیں درکار معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
ان مہاجرین کے مطابق انہیں یہاں اکثر یو این ایچ سی آر، حکومت پاکستان، افغان حکومت کی جانب سے کئے گئے اعلانات، پولیو احوال، یہاں پر مقیم افغانوں کی تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل کےحوالے معلومات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن اخبار، ٹی وی یا ریڈیو سے انہیں یہ معلومات کم کم یا پھر سرے سے ملتی ہی نہیں ہیں۔
مہاجرین کے عالمی ادارے یو این سی آر کے مطابق پاکستان میں چودہ لاکھ کے قریب رجسٹرڈ جبکہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں غیررجسٹرڈ افغان پناہ گزین مقیم ہیں جبکہ مختلف زرائع کے مطابق گزشتہ سال افغانستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد لگ بھگ پانچ لاکھ مزید افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا ہے۔
کیا وجوہات ہیں جو پاکستانی میڈیا تیس لاکھ سے زائد اس آبادی کو توجہ نہیں دیتا اور ان کے مسائل کو سامنے نہیں لاتا۔ اس حوالے سے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اسلام گل آفریدی نے بتایا کہ اس کی بڑی وجہ افغان مہاجرین کی خیبر پختونخوا میں سکونت ہے کیونکہ ادھر بسنے والوں سے میڈیا کو ملنے والے فوائد بہت کم ہیں، ”عالمی اداروں کی افغان مہاجرین میں دلچسپی باقی نہیں رہی، اک بڑی وجہ تو یہ ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں جو مارکیٹنگ کے لحاظ سے، میڈیا کی جو رینکنگ ہم دیکھتے ہیں، اس میں شامل نہیں ہے، اس سے قبل خود خیبر پختونخوا سے بھی ایسی شکایات عام تھیں کہ ان کے مسائل کو اس طرح توجہ نہیں دی جاتی، اور اب افغان پناہ گزینوں کے ساتھ بھی یہ مسئلہ چل رہا ہے۔”
اسی طرح افغان صحافی داؤد دلاور نے بتایا کہ بدقسمتی سے ادھر میڈیا اداروں یا اخبارات میں افغان مہاجرین کے صرف اشتہارات ہی نظر آتے ہیں، ”ان کی خبروں کو، ان کے مسائل کو کوئی اتنی زیادہ توجہ نہیں دیتا، کہیں کسی کونے میں ایک چھوٹی سی خبر افغانوں کے بارے میں چھپی ہو گی وہ بھی آپ دیکھو گے پھر کہ یہ خبر ہے، اشتہار ہے یا کچھ اور، تو ان سے افغانوں کو بہت دور رکھا جاتا ہے، بعض اوقات افغانوں کے حوالے سے یو این ایچ سی آر یا افغان کمشنریٹ کچھ بیان جاری کرتے ہیں اور پھر جب اس طرح کی خبریں میڈیا، اخبار اور چینلز پر نہیں آئیں گی تو اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کو پتہ چلتے چلتے کافی وقت لگ چکا ہوتا ہے۔”
دلاور نے مزید بتایا کہ نئے مہاجرین سے متعلق پاکستانی میڈیا میں خبروں کے نا آنے کے ذمہ دار خود یہ مہاجرین بھی ہیں کیونکہ یہاں میڈیا کے لوگوں کو ان مہاجرین کا پتہ ہے نا ہی انہیں ان کے مسائل کا ادراک ہے، ”یہ جو مہاجرین آئے ہیں وہ معلوم نہیں ہیں، کوئی رشتہ داروں کے ساتھ تو کوئی ایک جگہ تو کوئی دوسری جگہ مقیم ہے، سارے ادھر ادھر پڑے ہیں، ان میں سے بیشتر افغان مہاجرین اسلام آباد کے مختلف ہوٹلوں میں رہائش پذیر ہیں، وہاں انہوں نے کمرے کرایے پر لئے ہیں اور ان کی اکثریت اس کوشش میں ہے کہ وہ کسی نا کسی طرح سے بیرون ملک چلے جائیں۔”
دوسری جانب اسلام گل آفریدی کے مطابق ان مہاجرین اور ان کے مسائل تک رسائی صحافیوں کی پیشہ ورانہ اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میڈیا اداروں کو اس سلسلے میں اپنی پالیسیاں بدلنی چاہئیں، ”افغانستان میں اقتصادی حالات (خراب)، اسی طرح امن امان کا مسئلہ ہے، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے تو اس حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ کافی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہیں، اور یہ انتہائی مجبور ہو کر پاکستان آئے ہیں تو اس وقت پاکستانی میڈیا کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں مل بیٹھ کر کوئی ایسا لائحہ عمل طے کریں، ان لوگوں اور ان کے مسائل کے حوالے سے ایک اصول طے کر لیں کہ انہیں کتنا وقت دیا جائے گا اور ان کے کن کن مسائل پر کام اور ان کے حل کیلئے کیا کیا، کیا جائے گا، تو میرے خیال میں یہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔”
اسلام گل و دیگر صحافی اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستانی میڈیا اداروں میں افغان مہاجرین کے جرائم کے علاوہ ان کی مثبت تصویر پیش کرنا اور انہیں درکار معلومات دینا بھی ضروری ہو گیا ہے اور اس سلسلے میں میڈیا اداروں کو چاہیے کہ وہ افغان ڈیسک قائم کریں۔